ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
اختر شہاب اردو ادب کے ایک کہنہ مشق ادیب اور منفرد اسلوب کے حامل سفرنامہ نگار ہیں۔ گزشتہ چالیس برسوں سے وہ ادب کی دنیا میں سرگرم عمل ہیں اور ڈیڑھ سو سے زائد کہانیاں اور افسانے تخلیق کر چکے ہیں۔ ان کی پہلے سے موجود دو کتابیں “من تراش” اور “ہم مہرباں” کہانیوں اور افسانوں پر مشتمل ہیں، جبکہ “سفرین کہانی” ان کے دو سفرناموں کا مجموعہ ہے۔ ان کی دیگر کتابیں “الحین بھوم (اب جنگ چھڑ گئی ہے)” اور “اختر شہابیاں” (خود نوشت) طباعت کے مراحل میں ہیں۔
اختر شہاب نہ صرف افسانہ نگاری اور سفرنامہ نویسی میں مہارت رکھتے ہیں بلکہ سائنسی موضوعات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کی کتاب “بادل” بادلوں سے متعلق سائنسی معلومات پر مبنی ہے، جبکہ “چند آلات مشاہدات” اور “کتابِ مشاہدین” جیسے تحقیقی کام بھی ان کی علمی و فکری وسعت کا ثبوت ہیں۔ اردو کے ساتھ ساتھ پنجابی میں بھی شاعری کرتے ہیں اور انگریزی میں بھی تالیفات شائع کروا چکے ہیں۔
“سفرین کہانی” اختر شہاب کے دو سفرناموں “شاہراہِ ریشم کے ساتھ ساتھ” اور “بارشوں کے شہر میں” پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کو ڈاکٹر عارف حسین عارف نے اپنے ادارے “حسنِ ادب پبلشر، فیصل آباد” سے شائع کیا ہے۔ کتاب کا انتساب ارسلان مجتبی اور سفر کے شوقین افراد کے نام کیا گیا ہے۔ تقریظ محمد شاہد احمد اور کلثوم رفیق نے لکھی ہے۔
کتاب کے پس ورق میں محمد شاہد محمود لکھتے ہیں “اختر شہاب صاحب” کی کتاب “سفرین کہانی ” کا پیش لفظ اتنا متاثر کن ہے جیسے کوزے میں دریا بند کر دیا گیا ہو۔ اس سے قبل اختر شہاب صاحب کی دو تصانیف زیر مطالعہ رہی ہیں۔ ان کتب کے مطالعے کے بعد حتمی رائے قائم کرنے سے قاصر تھا مگر”سفرین کہانی“ کے مسودے کا مطالعہ حتمی رائے قائم کرنے میں مددگار اور کارگر ثابت ہوا۔ سفر ناموں کے یادگار لمحات کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کر کے، تصاویر کتاب میں آویزاں نظر آرہی ہیں، جو سفر ناموں کی تزئین و آرائش بڑھا رہی ہیں۔ جن مقامات کے لیے رخت سفر باندھا گیا ، ان علاقوں کے نقشے بھی کتاب میں شامل ہیں جو قارئین کے لیے کتاب کی سمت اور مقامات سمجھنے میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ پہلے سفر نامے میں آپ سگریٹ نوشی کرتے پائے جاتے ہیں جب کہ دوسرے سفرنامے تک پہنچتے پہنچتے آپ سگریٹ نوشی ترک کر چکے ہیں۔ اختر شہاب صاحب میں حب الوطنی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ آپ نے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ جب غیر ملکی سیاح اپنے ملک واپس جائیں تو ہم وطنوں کے بارے میں اچھی رائے اور خوش گوار تاثرات کے ہمراہ جائیں۔ دوسرے سفر نامے کا ایک جملہ جو اپنی طرف کھینچتا ہے اور جینے کا حوصلہ دیتا ہے وہ Run for yuor life” ہے۔ ان کا اسلوب بہت زیادہ حد تک ابن انشا کے اسلوب سے ملتا جلتا ہے۔ وہ سادہ اور آسان الفاظ میں بات کرتے ہیں تا کہ قاری الجھاؤ کا شکار نہ ہو۔ ان کی سفرین کہانی کو اردو ادب میں خوش آمدید کہتا ہوں”۔
اسلوب اور طرزِ نگارش کے لحاظ یہ بہترین تخلیق ہے۔ان کے سفرناموں میں صرف سفری روداد نہیں ہی ہوتی بلکہ تاریخ، ثقافت، جغرافیہ اور انسانی رویوں کا گہرا مشاہدہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ وہ ایک عام سی جگہ کو بھی اپنی تحریر کے ذریعے دلچسپ اور یادگار بنا دیتے ہیں۔
شاہراہ ریشم والا یہ سفرنامہ صرف ایک جغرافیائی سفر نہیں بلکہ ایک تاریخی اور ثقافتی سفر بھی ہے۔ شاہراہِ ریشم کے راستے پر چلتے ہوئے اختر شہاب نے اس علاقے کے رسم و رواج، تہذیب اور تاریخی پس منظر کو انتہائی دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔ وہ کوہِ قاف کی روایتی کہانیوں سے لے کر جدید حقائق تک سب کچھ قاری کے سامنے رکھتے ہیں۔
دوسرا سفرنامہ “بارشوں کے شہر میں” کے نام سے شائع ہوا ہے۔ یہ سفرنامہ کراچی سے انڈونیشیا کے شہر بوگور (Bogor) تک کا احاطہ کرتا ہے، جہاں مصنف سٹیکو (Citeko) نامی مقام پر بہ غرض ٹریننگ قیام کرتے ہیں۔ اس سفرنامے کی سب سے بڑی خوبی اس کا داستانوی اسلوب ہے، جو قاری کو ایک منفرد تجربے سے روشناس کراتا ہے۔ مصنف نے اس میں ایک خاتون “ایڈنا” کا ذکر کیا ہے، جو کہانی کو مزید تجسس خیز بنا دیتی ہیں۔
اختر شہاب کا یہ سفرنامہ ایک ایسے انداز میں ختم ہوتا ہے کہ قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ کہانی ابھی مکمل نہیں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس سلسلے میں ایک ناول یا ناولٹ لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
“سفرین کہانی” کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ محض سفری روداد ہی نہیں بلکہ ایک تہذیبی اور تاریخی دستاویز بھی ہے۔ مصنف کے مشاہدات گہرے ہیں اور وہ عام چیزوں میں بھی خاص پہلو تلاش کر لیتے ہیں۔
اختر شہاب کے سفرنامے اردو سفرنامہ نگاری کی روایت میں ایک خوبصورت اضافہ ہیں۔ وہ ابنِ انشاء، مستنصر حسین تارڑ، اور محمود شام جیسے سفرنامہ نگاروں کی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان کی تحریر میں مزاح، معلومات اور جذبات کی آمیزش اسے دیگر افسانہ نگاروں سے منفرد بنا دیتی ہے۔
اختر شہاب ایک ہمہ جہت ادیب ہیں جو افسانہ نگاری، شاعری، سائنسی تحریر اور سفرنامہ نویسی میں مہارت رکھتے ہیں۔ “سفرین کہانی” ان کے مشاہدے کی گہرائی، اسلوب کی شگفتگی اور تحریر کی چاشنی کا بہترین نمونہ ہے۔ ان کی تحریریں اردو ادب میں ایک منفرد مقام رکھتی ہیں اور قاری کو ایک نئے جہان کی سیر کراتی ہیں۔ میں مصنف کو کتاب کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
Leave a Reply