سویرا عارف مغل
پہلی بات تو یہ ذہن میں رکھیں کہ زبان کا ادب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔کیونکہ میں نے اردو بولنے والے بھی کچھ ایسے لوگ دیکھے ہیں جو کر تو کسی کی اصلاح رہے ہوتے ہیں مگر انہیں گالیاں دے کر سمجھا رہے ہوتے ہیں۔اب یہاں کچھ لوگ کہیں گے کہ انداز جیسا بھی ہو کر تو وہ اصلاح (احسان) ہی کر رہے ہیں نا؟۔آپ مجھے بتائیں اگر آپ ایک بچے کو یہ کہنے کی بجائے کہ “میرا بستہ نہ چھیڑو اس میں پیسے ہیں.” یہ کہتے ہیں:” اوے کتے! میرا بستہ نہ چھیڑ ،اس میں پیسے ہیں۔”پھر ساتھ ہی آپ اسے طرح طرح کی بدعائیں بھی دینے لگ جاتے ہیں جبکہ آپ کے مطابق ابھی تک آپ اس کی اصلاح ہی کر رہے ہیں ۔ سو یہاں پھر اس بات کے کتنے فیصد امکان ہیں کہ وہ آپ کی بات سمجھ لے گا یا وہ خود بڑے ہوکر کبھی نہ کبھی زندگی میں آپ کو ان القابات سے نہیں نوازے گا۔لہذٰا انداز بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔انداز ہی تو انداز سکھاتا ہے ۔اگر آپ کسی کو اچھے انداز سے نہیں سمجھاتے تو اگلا بندہ آپ کی بات پر عمل کرنا تو دور اسے سننا بھی گوارا نہیں کرے گا۔اگر یقین نہیں تو آپ خود چند لوگوں کے ساتھ بداخلاقی(گالم گلوچ) کرکے دیکھیں کوئی بہت ہی عزت دار ہوگا جو بدلے میں وہی الفاظ آپ کو نہیں لوٹائے گا ورنہ ممکن ہے کہ زیادہ تر تو کبھی آپ کی صورت بھی دیکھنا نہ چاہیں کیونکہ اُن کے موقف کے مطابق تو فلحال آپ کو خود ہی اصلاح کی ضرورت ہے۔ہم اگر کسی کو بہت ادب سے بھی کسی بات سے منع کرتے ہیں، لوگ تو تب بھی غصہ کر جاتے ہیں۔ مگر اس صورت میں پھر بھی کہیں نہ کہیں امکان ہیں کہ وہ آپ کی بات پر غور کرے اور یہ سوچے کہ اس کا سمجھانے کا طریقہ تو کم از کم بہترین تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اگر مستقبل میں کبھی اسے کسی کو سمجھانا پڑے تو وہ کسی کی عزت نفس کی دھجیاں اڑانے سے احتیاط کریں۔بس ساری بات تربیت و سلوک کی ہے اور جبکہ کچھ لوگ ایسے بھی میں نے دیکھے ہیں جو انگریزی زبان میں بات کر رہے ہوتے ہیں مگر ان کا ادب اور لحاظ یا ان کے بات کرنے کا طریقہ اتنا عاجز ہوتا ہے کہ شاید میں لفظوں سے کبھی بیان بھی نہ کرسکوں۔ اسی طرح تعلیم کا ادب اور انسانیت سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیونکہ میں نے بہت زیاد تعلیم یافتہ لوگ ایسے بھی دیکھے ہیں جن میں نہ انسانیت ہوتی ہے اور نہ ادب و لحاظ ہوتا ہے۔لہذٰا کوئی بھی زبان یا بڑی سند ہرگز کسی کا ادب یا اس کی انسانیت واضح کرنے کی دلیل نہیں ہوسکتی ،ادب کے لیے فقط آپ میں عاجزی ہونی چاہیے اور عاجزی کے لیے خود کو جھکانا پڑتا اور جھکانے کے لیے انا کا قتل لازم ہے۔ اسی طرح انسانیت کے لیے آپ کے پاس کوئی سند نہیں بلکہ ہر انسان کے لیے ہمدردی کا جذبہ ہونا چاہیے۔خواہ پھر وہ شخص کسی بھی مذہب و رنگ و نسل سے منسلک ہو۔
Leave a Reply