حریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
خون دل و جگر سے علم و ادب کے چراغ روشن کرنے اور موتی تلاش کرنے والے برصغیر کےنامور ٬عالمی شہرت یافتہ قلم کار”ایم۔آئی۔ظاہر“صحافت٬ادب اور ادبی صحافت کے درخشاں ستارے ہیں۔دل کے آنگن میں محبتوں کی دنیا بسانے والے عظیم صحافی اور شاعر گلشن صحافت اور ادب کے ایسے پھول ہیں کہ جن کی مہک سے خیابان صحافت مہکتا ہے اور چمن ادب خوب سجتا ہے۔بقول شاعر :
وہ تازگی ہو غنچہ دل سے بول اٹھے،
جھونکا جدھرں سے آۓ ںبہار کا
موصوف کی قلمی خدمات کے تذکرہ سے پہلے ان کا مختصر سا تعارف پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ موصوف کی تحریروں اور مشتاقان ظاہر کے تذکرہ کے مطابق موصوف کا تعارف ۔۔۔
پورا نام : مشتاق الاسلام۔
قلمی نام:ایم آئی ظاہر۔ تخلص : ظاہر
والد:حاجی عبداللہ طاہر
والدہ:حاجن طاہرہ فاطمہ مرحومہ
اہلیہ:شبنم صمدانی(معروف شاعر شیح محمد ابراہیم آزاد بیکانیری کے خاندان سے)
تاریخ ولادت:06 جون 1972ء
جائے پیدائش:جودھپور راجستھان (بھارت)
تعلیم:ایم اے (صحافت)
ایم اے (ہندی)
ادیب کامل
ترجمہ ڈپلومہ
آغازِ تحریر: 12 سال
زبان:اردو، ہندی، انگریزی اور راجستھانی
اصناف:ادب اور صحافت-شاعر، صحافی،کالم نگار، افسانہ نگار، طنز و مزاح نگار، آرٹ ڈائریکٹر،اینکر
پیشہ: صحافت.
ذمہ داری:معروف قومی روزنامے میں
ڈپٹی نیوز ایڈیٹر۔
اہم اعزازات: (1)۔۔شاہد مرزا گلوبل ایوارڈ
۔ (2)عالمی ادبی فورم فار پیس
۔ اینڈ ہیومن رائٹس کی طرف سے
۔ بین الاقوامی امن سفیر ایوارڈ
۔ (3)راجستھان ایسوسی ایشن آف
۔ نارتھ امریکہ کیلگری کینیڈا کی
۔ طرف سے بین الاقوامی زبان ادب ایوارڈ
۔ (4)ماکھن لال چترویدی یونیورسٹی
۔ آف جرنلزم بھوپال کی جانب سے
۔ جھابرمل شرما نیشنل جرنلزم ایوارڈ
(6) مغربی بنگال اردو اکیڈمی کی جانب سے جام جہاں نما نیشنل جرنلزم ایوارڈ.
(7) راجستھان میں صحافت کا سب سے بڑا مانک النکرن ایوارڈ
۔(8)جن کلیان سمیتی نیشنل کورونا کرمویر ایوارڈ علی گڑھ
(9) مارواڑ راجگھرانے کی جانب سے ویر درگاداس راٹھوڑ ایوارڈ
(10) راجستھان کلا ساہتیہ سنستھان کی جانب سے رنگ سیوا سمان
(11) خواجہ عبد اللطیف چشتی درگاہ جودھپور کی جانب سے نشان لطیف ایوارڈ
(12) میونسپل کارپوریشن جودھپور ایوارڈ. ..
منتظم اور ناظم۔۔۔
ان کے اعزاز میں تین عالمی سطح کی تین تقاریب کا انعقاد ہو چکاہے۔1۔ ایک شام ایم آئی ظاہر کے نام توقیر زیدی الہ باد کی جانب سے۔2. جشن پزیرائی اور مشاعرہ امروہہ فاؤنڈیشن نیی دہلی ۔۔دونوں تقاریب میں جرمنی کے بابائے اردو عارف نقویصاحب نے شرکت کی تھی, جن کا چند روز قبل انتقال ہوگیا ہے۔عارف نقوی کہتے تھی کہ میں ایم آئی ظاہر میں اپنا مستقبل دیکھتا ہوں۔ شرکت کرنے والے ادبا اور شعراء کی فہرستیں لمبی ہے۔3. جشن تہنیت اور مشاعرہ بزم صادق حیدرآباد دکن ۔ عذرہ نقوی صاحبہ اومان اور چشمہ فاروقی صاحبہ نئی دہلی نے مقالے پیش کیے تھے۔
۔موصوف نے جس قدر صحافت کے میدان میں اپنی قابلیت کا لوہا منوایا اسی طرح شعروسخن کے چمن میں بھی پھول سجاۓ۔آپ کی غزلیات میں بھی ایک امید کی کرن نظر آتی ہے۔
غزل۔۔
ادھ کھلی آنکھ جو اک خواب دکھاتی ہے ہمیں
زندگی تیرے کئی روپ بتاتی ہے ہمیں
بے وفائی میں نہیں آپ کا ثانی کوئی
بات یہ کہتے ہوئے شرم سی آتی ہے ہمیں
دور جاتےہیں تو لوٹ کے آجاتے ہیں
زندگی آپ کے قدموں میں بلاتی ہے ہمیں
آپ انکار پہ انکار تو کرتے ہیں مگر
آنکھ میں کوئی تمنا نظر آتی ہے ہمیں
کس کی آمد سے معطر ہیں فضائیں ظاہر
کیسی خوشبو ہے جو پردے سے بلاتی ہے ہمیں
غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے کاندھے پہ زمانے کے صلیب آج بھی ہے
کس قدر دیکھیے مجبور ادیب آج بھی ہے
الجھنیں آنکھ سے آنسو کی طرح بہتی ہیں
کل بھی تھا بےکس و مجبور نصیب ، آج بھی ہے
دامن و دست بڑھانا ہے امیروں کی طرف
اور دعا دینا ہی اس کا نصیب آج بھی ہے
ہجر اور وصل کے موسم ہیں تو ظاہر کے لیے
غیر تو آپ کے بے کو نہ قریب آج بھی ہے
موصوف کی قلمی خدمات کا عکس ہندوستان کے اخبارات کے قرطاس پر نمایاں نظر آتا ہے۔انسانیت کی بھلاٸی کی خواہش دل میں سماۓ رکھتے ہیں۔چاہت اور محبت کے آبگینوں میں ایک چمک نظر آتی ہے۔بقول شاعر:-
میں ہوں نایاب کہ آہستہ روی خو ہے میری
زندگی کی راہگزر پر چلنے والے ”ظاہر “اپنے من میں انسانیت کی خدمت کا متلاطم جذبہ سماۓ متحرک رہتے ہیں۔بزم ادب و صحافت میں ایک خاص مقام موصوف کو دیا جاتا ہے۔چہرے پر مسکراہٹ اور لبوں پر محبت بھرے کلمات سے دلوں کو فتح کرنے کے ہنر سے اچھی طرح آشنا ہیں۔بقول شاعر:-
گداۓ عشق ہوں کیا اس کے ماسوا دوں گا
وفور شوق سےدیکھوں گا مسکرا دوں گا
اخبارات و جراٸد کی روشنی میں موصوف سے محبت کرنے والوں کی راۓ سے ایک احساس زندہ ہوتا ہے کہ ”ایم ۔آٸی۔ظاہر“اوج کمال کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔اردو گلوبل میڈیا کے مطابق اردو صحافت کے میدان میں ”ایم۔آئی۔ظاہر“ کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ موصوف بحیثیت مبصر،شاعر،صحافی براۓ امور خارجہ،نیوز ریڈر،نیوز اینکر ،سکرپٹ رائیٹر،کالم نگار بہت سے فرائض محنت اور دلجمعی سے سرانجام دیتے ہیں۔گویا موصوف کی زندگی کے گوشے اور سرگرمیاں ہمہ جہت شخصیت کی عکاس ہیں۔تفصیلات کا جائزہ لیں تو انہیں متعدد معیاری تقریبات میں شرکت کرنے کا موقع ملا۔اردو صحافت کے دو سو برس پورے ہونے پر مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی اردو یونیورسٹی حیدرآباد دکن کی جانب سے منعقدہ بین الاقوامی سیمینار ”کاروان صحافت“میں شرکت ،برصغیر کے مؤقر ادبی جریدہ ارمغان ادب میں پاکستان کی بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعرہ محترمہ عنبرین حسیب عنبر کی ادبی خدمات پر ظاہر صاحب کی خوبصورت تحریر ،روزنامہ قومی صحافت لکھنؤ کے شمارہ میں استعارہ و اسلوب اشہر ہاشمی نمبر پر ظاہر صاحب کا دلکش تبصرہ اور ادبی محفلوں میں شرکت کا ایک تسلسل جاری رہتا ہے۔موصوف کاروان زندگی رواں دواں دیکھنے کے آرزو مند رہتے ہیں۔نوک قلم سے انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھتے اور امید و آس کا پیغام دیتے ہیں۔حلقہ یاراں میں ابریشم کی طرح نرم رہتے ہیں۔دل کی بات کہتے ہیں تو کمال کر دیتے ہیں۔ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ موصوف کی خدادا صلاحیتوں اور عملی کام کو ایک سیمینار میں ادباء اور شعراء نے سراہا اور صحافتی شخصیات نے بھی اپنے مقالہ جات اور خطاب میں خراج تحدین پیش کیا عارف نقوی صاحب کے ساتھ ہی امریکہ میں مقیم عالمی شہرت یافتہ افسانہ نگار شبہییہ زہرا حسینی،نجیب الہ آبادی، ،ڈاکٹر ثروت خان،چشمہ فاروقی،توقیر زیدی، آعظمی،ڈاکٹر احمد علی برقی،سید اسلم صدا عامری جیسی شخصیات نے موصوف ایم۔آئی۔ظاہر کی قلمی خدمات کو سراہا اور خراج تحسین پیش کیا ھے۔ ان کے بارے میں ان کا ہی ایک شعر صادق آتا ہے : چہرہ کسی کا اب کہیں آتا نہیں نظر، بے رنگ زندگانی میں سو رنگ بھر گیا
تحریر۔فخرالزمان سرحدی
گاؤں ڈِنگ ،پوسٹ آفس ریحانہ
تحصیل و ضلع ہری پور
رابطہ۔03123377085
Leave a Reply