rki.news
اردو زبان کی جڑیں نہ صرف برصغیر کی تہذیبی تاریخ میں پیوست ہیں، بلکہ اس کی روح میں وسعت، رواداری اور قبولیت کا جو عنصر پایا جاتا ہے، وہ اسے ایک لبرل (آزاد خیال و کشادہ ذہن) زبان بناتا ہے۔ اردو محض ایک زبان نہیں بلکہ ایک تہذیبی ورثہ ہے جو مختلف قوموں، ثقافتوں، مذاہب اور طبقات کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔
اردو زبان کا ارتقاء دہلی اور دکن کے میدانوں میں ہوا، جہاں فارسی، عربی، سنسکرت، برج، پنجابی، ترک اور مقامی زبانوں نے باہم میل جول سے ایک نئی تہذیب کو جنم دیا۔ اردو نے ان سب زبانوں کی خوبیاں سمیٹ کر اپنے دامن کو کشادہ کیا۔ یہی کشادگی اس کی لبرل فطرت کا پہلا ثبوت ہے۔ اردو نے کبھی مذہب، نسل یا علاقے کی بنیاد پر کسی لفظ یا خیال کو رد نہیں کیا۔
اردو میں جہاں “نماز”، “اذان”، “قرآن” جیسے الفاظ موجود ہیں، وہیں “پوجا”، “بھگوان”، “دیوی”، “کرما” جیسے الفاظ بھی اسی روانی سے استعمال ہوتے ہیں۔ اردو غزل میں میر تقی میر سے لے کر بشیر بدر تک اور نعتیہ شاعری میں ولی دکنی سے لے کر حفیظ تائب تک، ہر طرزِ فکر کو جگہ ملی۔ یہی زبان کی آزادی کا حسن ہے۔
اردو میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، اور دہریہ لکھاریوں نے نہ صرف اپنے خیالات کا اظہار کیا بلکہ ایک دوسرے کے عقائد کا احترام بھی کیا۔ اردو کے اسٹیج ڈرامے، افسانے اور شاعری میں ہر طبقے کی نمائندگی نظر آتی ہے، اور کسی بھی مخصوص نظریے کو دوسروں پر تھوپنے کا رجحان کم پایا جاتا ہے۔
منٹو، عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر، احمد ندیم قاسمی اور فیض احمد فیض یہ وہ نام ہیں جنہوں نے اردو زبان میں سماجی ناانصافی، طبقاتی فرق، خواتین کے حقوق، انسانی آزادی اور سیکولر اقدار پر آواز اٹھائی۔ ان کا قلم اردو کے لبرل ہونے کی گواہی دیتا ہے۔
زبان کا مزاج معاشرے کے رجحانات کو نہ صرف متاثر کرتا ہے بلکہ ان کی تشکیل بھی کرتا ہے۔ اردو نے ہمیشہ پل کا کردار ادا کیا ہے فرقہ وارانہ دیواریں گرانے کا، دلوں کو جوڑنے کا، اور مختلف نظریات کو یکجا کرنے کا۔ یہی خوبی اردو کو لبرل زبان بناتی ہے۔
اردو زبان کی سب سے نمایاں خوبی اس کی مذہبی ہم آہنگی ہے۔ اس زبان نے مذہب کو کبھی تعصب کی عینک سے نہیں دیکھا۔ جہاں مسلمانوں نے بھجن لکھے، رام اور کرشن کے گُن گائے، وہیں ہندو شعراء نے نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم لکھی، اور عشقِ مصطفیٰ میں ڈوب کر کلام کہا مثال کے طور پر:
پنڈت دیا شنکر نسیم، مُنشی چراغ لکھنوی اور ہرگوپال تفتہ جیسے ہندو شعراء نے ایسی نعتیں لکھیں جن میں عقیدت، احترام اور جذبہ کسی بھی مسلمان شاعر سے کم نہ تھا دوسری طرف مولانا حسرت موہانی جیسے مسلمان اہلِ قلم نے کرشن جی کے حضور کلام کہا اور ہندوستانی ثقافت کی حسین جھلک پیش کی یہ صرف ادب نہیں، یہ تہذیبی میل جول کا عظیم ثبوت ہے، جو اردو زبان کی کشادگی، برداشت اور آزادیِ اظہار کی علامت ہے موجودہ دور میں جہاں پاکستان میں تو نعتیہ کلام کثرت سے لکھا جا رہا ہے وہیں انڈیا میں بھی سرفراز بزمی(مسلم) اور ڈاکٹر پنڈت ساگر ترپاٹھی (ہندو برہمن) بہت خوبصورت نعتیہ حمدیہ اور اہلِ بیت پر منقبت لکھ رہے ہیں ڈاکٹر پنڈت ساگر ترپاٹھی صاحب کا اسلامی مذہبی کلام جس عقیدت و احترام کے ساتھ پڑھا اور سنا جاتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے یہ ان کی اردو دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے ایسے ہی لوگ جو زبان کو کسی سرحدی حدود تک محدود رکھنا نہیں چاہتے انہی میں ایک نام ڈاکٹر عنبر کھربندہ صاحب کا بھی ہے جو اردو شاعری کا معتبر نام ہے ان کے علاوہ بہت سی ہندو خواتین شاعرات بھی خوبصورت اردو غزلیں لکھ رہی ہیں۔
بعض مُحققوں کے مطابق اردو کی اولین غزل جو اس وقت دستیاب ہے شاہ جہاں ہی کے عہد میں پنڈت چندر بھان برہمن ( 1574 تا 1662 ) نے لکھی تھی۔
خدا جانے یہ کس شہر اندر ہمن کو لاکے ڈالا ہے
نہ دلبر ہے نہ ساقی ہے نہ شیشہ ہے نہ پیالا ہے
پیا کے ناوں کی سِمرن کیا چاہوں کروں کیسے
نہ تسبیح ہے نہ سِمرن ہے نہ کنٹھی ہے نہ مالا ہے
اردو زبان کی لچک، اس کی سماجی ہم آہنگی، اور ہر طبقے و مکتبِ فکر کو اپنی آغوش میں سمیٹنے کی صلاحیت اسے ایک حقیقی لبرل زبان بناتی ہے۔ آج جب دنیا تقسیم در تقسیم کی طرف جا رہی ہے، اردو ہمیں اجتماع، برداشت، اور آزادی اظہار کا سبق دیتی ہے۔ اس زبان میں ہر فرد کو اپنی بات کہنے کا حق ہے یہی اس کا سب سے بڑا کمال ہے
Leave a Reply