تازہ ترین / Latest
  Sunday, December 22nd 2024
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

اردو بولنے والوں کے لیے ایک لمحہ فکریہ

Articles , Snippets , / Monday, May 6th, 2024

اردو کس حال میں ہے؟
اردو کا مستقبل کیا ہے؟
کیا روزگار سے جوڑے بغیر زبان کا تحفظ ممکن ہو سکتاہے؟
کیا نئی نسل کو صرف جذباتی بنیادوں پر اردو زبان و ادب اور تہذیب و ثقافت سے منسلک کیا جاسکتا ہے؟ اور زبان کے اس زوال کی کیا وجوہات ہیں ؟ کون ذمہ دار ہے۔ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جواب اردو کے نام پر روزی روٹی کمانے والے اور لقمہ تر کھانے والے اہل اردو کے پاس بھی نہیں ہے ۔
سچ یہی ہے کہ اردو زبان و ادب کے اہم مراکز میں بھی اردو اپنے بد ترین دور سے گزر رہی ہے۔ اردو کتب فروش دوسرے کسی ذریعہ معاش کے بارے میں سوچنے لگے ہیں ۔ اردو بازار بازار جامع مسجد دہلی مکتبہ جامعہ دہلی دانش محل لکھنئو ان تمام کتب خانوں کے مالکان اور ذمےداران کی گفتگو سنُ کر احساس ہوتا ہے کہ واقعی اردو کتب فروشوں کی حالت کتنی خراب ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ دس بارہ سال میں جس تیزی سے اردو کتب کی خریداری کا منظر نامہ تبدیل ہوا ہے، اس نے کتب فروشوں کو مایوسی میں مبتلا ہی نہیں کیا بلکہ معاشی طور پر بدحال کردیا ہے۔ ادبی کتابوں کے خریدار تو ناپید ہوچکے ہیں ، تاہم کورس میں پڑھائی جانے والی اردو کتابیں اور کچھ مذہبی کتابیں ضرور فروخت جاتی تھیں ۔ لیکن اب ان کی فروخت میں بھی غیر معمولی کمی آئی ہے ۔آن لائن تعلیم اور اسکرین پر پی ڈی ایف کتابوں کی وجہ سے بھی کتابوں کی فروخت پر کافی اثر پڑا ہے۔ اردو ادب سے عدم دلچسپی کے سبب ادبی رسائل کا میدان بھی سنسان و ویران ہے مجموعی طور پر حالت ناقابل بیان ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ اب کتب خانوں کے مالکان نے ان حالات کے پیش نظر کتب خانوں کے ہی ایک گوشے میں دوسرا کام بھی شروع کردیا ہے اور اسی سے کسی طرح زندگی کی معاشی نیّا پار لگ رہی ہے۔
اردو کتابوں کی فروخت نہ ہونے کے سبب معروف کتب خانے مکتبہ دین و ادب کو پہلے بند کیا گیا اور پھر دوکان فروخت کردی گئی ۔ آپ کو یہ جان کر افسوس ہوگا کہ لکھنئو کا دل کہلانے والے امین آباد میں جس مکتبے پر کبھی ادب عالیہ پر مشتمل کتب فروخت ہوتی تھیں، اب انڈے پراٹھے اور کباب بیچے جارہے ہیں۔ مکتبہ دین و ادب کے مالک سے جب کتب خانہ فروخت کرنے کے بابت پوچھا گیا تو انہوں نے واضح طور پر کہا “کہ جس کاروبار سے بچوں کا پیٹ نہ بھر سکے، زندگی کے ضروری اور بنیادی مسائل حل نہ ہوسکیں، اس سے جذباتی طور پر جڑے رہنا مناسب نہیں ۔ اگر واقعی ہمیں معقول آمدنی ہوتی تو ہم اس قیمتی وراثت کو کبھی فروخت نہ کرتے۔ ہر لمحہ ماضی یاد بھی آتا ہے، والد کی قربانیاں اور اردو سے محبت بھی یاد ہے، لیکن روٹی کمانے کے لئے کچھ تو کرنا ہی ہوگا ۔ اردو کتابیں بکتی نہیں تھیں، کئی سال کوشش کی اور تھک ہار کر کتب خانے کو بند کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا”۔
یہی حال اُردو بازار جامع مسجد کا ہے جہاں کِسی زمانے میں اردو کے درجنوں کُتب خانے ہوا کرتے تھے وہاں صرف ایک کُتب خانہ بچا ہے آور اگر وقت رہتے اقدامات نہ کئے گئے تو شاید یہ بھی بند ہو جائے ۔
ہند انٹر کالج کے نزدیک صدیقی بک ڈپو کے مالک کہتے ہیں کہ پہلے اپنے ساتھ دونوں بیٹوں کو کتب فروشی کے کاروبار میں لگا رکھا تھا، لیکن اردو کی تو بات ہی کیا مجموعی طور پر حالات بہت خراب ہیں، اب ایک فیملی کے اخراجات بھی پورے کرنے دشوار ہیں۔ ادبی کتابیں بالخصوص شعری مجموعے الماریوں میں جگہ گھیرے ہوئے ہیں ، کوئی پرسانِ حال نہیں ، اردو کتابوں کے خریداروں کی قوت خرید ویسے ہی کمزور تھی اور بڑھتی بے روزگاری اور خراب ہوتےمعاشی نظام کا اس پر بہت برا اثر پڑا ہے۔
اندازہ لگایا جاسکتا ہے جب اردو کے اہم مراکز میں اردو کتب فروشوں اور کتب خانوں کی یہ حالت ہے تو چھوٹے شہروں اور قصبوں کا منظر نامہ کیا کچھ بیان کر رہا ہوگا۔

کچھ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ عملی طور پر یہ احساس ہونے لگا ہے کہ اردو کتابوں کا تھوڑا بہت تعلق جاتی ہوئی نسل سے باقی ہے، نئی نسل دور اور بہت دور ہوتی جارہی ہے۔ جب لوحِ مزار تک اردو میں نہیں لکھی جارہی ہوں تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ ایک زندہ و تابندہ زبان و ادب کے لئے اب قبرستان میں بھی جگہ نہیں بچی ۔
اردو کے اہم مراکز اور شہروں سے قصبات و دیہات تک منظر نامہ کم و بیش یکسانیت لئے ہوئے ہے۔
مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ محض تجارتی ادارہ نہیں ہے اس نے کئی نسلوں کی تربیت کی ہے اور سچ یہ ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا تعارف بغیر جامعہ مکتبہ لمیٹیڈ کے ادھورا ہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے منتظمین یا تو غفلت کا شکار ہیں یا ان کا تعلق اُردو سے کبھی نہیں رہا۔۔کیوں ک جامعہ جیسی یونیورسٹی آج جس مقام پر ہے ووہ صرف اُردو اور اس کی تہذیب کی بدولت ہے ۔
سرکاری اداروں، یونیورسٹیوں، کالجوں اور اکادمیوں میں بیٹھے لوگ کچھ بھی کہتے رہیں، لیکن ایک کڑوا سچ یہی ہے کہ اب ہندوستان بالخصوص اتر پردیش اور دہلی میں اردو کے سنہرے خواب دیکھنے اور دکھانے والے دونوں لوگ یا تو بینائی کھو چکے ہیں یا پھر اپنے ساتھ ساتھ آنے والی نسل کو بھی دھوکا دے رہے ہیں ۔
ایک چھوٹی سی گذارش اگر ممکن ہو تو اردو کی بقاء کے لئے مہینے میں ایک کتاب ضرور خریدئیے اور اردو اخبار خریدنا اور پڑھنا شروع کریں۔ان شاء اللہ تعالیٰ کامیابی ملے گی اور یہ اُردو زبان رہتی دنیا تک اسی خوبصورتی کے ساتھ زندہ و تابندہ رہے گی۔

*انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات*

ڈاکٹر محمد معین ضمیر خان دہلی


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International