اردو، جسے کبھی ہندی، ہندوی، ریختہ، ہندوستانی، اور اردو معلی کے ناموں سے بھی جانا گیا، ایک ترک زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب لشکر یا لشکر گاہ ہے۔ اس زبان کا آغاز ایسے ماحول میں ہوا جہاں مختلف زبانیں بولنے والوں کو رابطے اور افہام و تفہیم کے لیے ایک مشترکہ ذریعہ درکار تھا۔ یوں یہ زبان بازاروں اور لشکروں میں پروان چڑھی، لیکن جلد ہی عوام میں مقبول ہوکر رابطے کی زبان بن گئی۔
اردو زبان کے خدوخال گیارہویں صدی عیسوی سے نمایاں ہونا شروع ہوئے، اور امیر خسرو کے دور سے یہ ایک مستحکم شکل میں ڈھلتی چلی گئی۔ اس کے بعد سے آج تک اردو زبان و ادب کا سفر کئی مراحل سے گزرا ہے، جس نے اسے ایک ترقی یافتہ زبان کی حیثیت دے دی۔
سائنسی اور تکنیکی ادب میں اردو کا مقام
اردو زبان نے صرف ادب ہی نہیں بلکہ سائنسی اور تکنیکی مضامین میں بھی اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ڈاکٹر محمد شکیل کے مطابق، اردو میں سائنس پر پہلی کتاب سولہویں صدی عیسوی میں “بھوگ بل” کے عنوان سے لکھی گئی، جس کے خالق شہاب الدین قریشی تھے۔ اس کتاب کا کچھ حصہ جنسیت اور دوسرا حصہ طب پر مبنی تھا، اور اس کا مخطوطہ آج بھی سالار جنگ میوزیم میں محفوظ ہے۔ سترہویں صدی تک، اردو نے پورے برصغیر میں رابطے کی زبان کا درجہ حاصل کر لیا تھا۔
اردو اور انگریزی کا تعلیمی تصادم
1834ء میں، راجہ رام موہن رائے کی قائم کردہ کمیٹی کا مقصد مشرقی زبانوں کے بجائے انگریزی کو تعلیمی زبان کے طور پر فروغ دینا تھا۔ اس وقت لارڈ میکالے نے بھی اپنی تقریر میں اردو کو ہندوستان کی اہم زبان تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ تاہم، اردو زبان کا اثر برقرار رہا اور اس نے اپنے ادب میں ہندوستان کی قدیم روایات اور مشترکہ تہذیب کو فروغ دیا۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق کی کتاب “مرحوم دہلی کالج” میں اردو کے فروغ کا ذکر ہے، جہاں فلسفہ، سائنس، اور تاریخ سمیت دیگر علوم اردو زبان میں پڑھائے جاتے تھے۔ بدقسمتی سے، یہ ادارہ بعد میں حالات کا شکار ہوگیا ورنہ علوم و فنون کا ایک اہم مرکز بن سکتا تھا۔
سرسید احمد خان اور اردو کی ترقی
1857ء کے بعد سرسید احمد خان نے ہندوستان کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات میں تبدیلی کے لیے اہم اقدامات کیے۔ انہوں نے تعلیمی اور اصلاحی تحریکیں شروع کیں جن سے اردو ادب کو فروغ ملا۔ ان کی “سائنٹیفک سوسائٹی” کے تحت سائنسی کتابوں کے اردو میں ترجمے کیے گئے اور اس دور کے لکھاریوں نے تاریخی، سائنسی اور اخلاقی موضوعات پر بیش قیمت مضامین لکھے۔
اردو ادب میں تحقیقی خدمات
اردو ادب کے ارتقا کے حوالے سے حافظ محمود شیرانی کی کتاب “پنجاب میں اردو” (1925ء) نے کئی اہم پہلوؤں کو پیش کیا۔ مزید برآں، 1992ء میں یونیورسٹی آف واشنگٹن کے پروفیسر سڈنی کابرٹ نے اردو کو دنیا کی عظیم زبانوں میں شمار کیا۔ معروف ہندو اسکالر نشی کانت چٹوپادھیائے نے بھی اردو کو اس کی لوچدار فطرت کی وجہ سے ہندوستان کی قومی زبان قرار دیا۔
اردو کا دامن بہت وسیع ہے، جس میں مختلف زبانوں اور تہذیبوں کی خوشبو رچی بسی ہے۔ عسکری قوت اور شیرینی کی یہ زبان صدیوں سے برصغیر کی پہچان رہی ہے۔ مگر آج ہم ماضی کے سنہری دور کو خواب سمجھ کر یاد کرتے ہیں اور اپنی نئی نسل کو اس خزانے سے آشنا کرنے میں ناکام ہیں۔ یہ وہی زبان ہے جو ایک زمانے میں ادبی، فکری، اور تہذیبی ترقی کا باعث بنی تھی، مگر آج، یہ صرف سیمیناروں اور مشاعروں کی رونق بن کر رہ گئی ہے۔
اردو زبان سے وابستہ دانشوروں نے بھی نئی نسل کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ ادب و فن کی سرپرستی، جو کبھی اردو کے فروغ کا اہم ذریعہ تھی، اب محض کاغذی کارروائیوں اور رسمی تقریبات تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ہماری نوجوان نسل تعمیراتی کاموں کی منتظر ہے، جیسے اٹھارویں اور انیسویں صدی میں اردو کے فروغ کے لیے بےشمار اقدامات کیے گئے۔ لیکن آج نہ کوئی نئی یونیورسٹی قائم ہو رہی ہے اور نہ ادبی ادارے جو اردو کے فروغ میں حصہ لیں۔
اردو کا خسارے کی جانب سفر
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اردو جیسی وسیع لسانی اور ثقافتی زبان آج خسارے میں کیوں ہے؟ 2001ء کی مردم شماری کے مطابق، اردو بولنے والوں کی تعداد 5 کروڑ 15 لاکھ تھی، لیکن 2011ء کے بعد سے یہ تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ حالیہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، اردو بولنے والوں کا تناسب اب ہندوستان میں ساڑھے چار فیصد سے بھی کم ہے۔ ہم دہائیوں سے حکومت پر یہ الزام تو لگاتے آئے ہیں کہ اردو کے ساتھ سوتیلی اولاد جیسا سلوک کیا جا رہا ہے، مگر یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ حکومت کو اس زبان کو نظرانداز کرنے کا موقع فراہم کس نے کیا
اردو کو زندہ رکھنے کی تدابیر
ہم اپنی نسل کو اپنی مادری زبان اردو سے روشناس کروانے میں ناکام ہیں۔ مدارس بند ہو رہے ہیں، سرکاری اسکولوں میں اردو تعلیم کی کمی ہے، اور اردو تدریس کا نظام زوال کا شکار ہے۔ اردو فاصلاتی تعلیم کے ذرائع کو فروغ دینے سے اردو زبان و ادب کو نئی زندگی دی جا سکتی ہے۔ ضرورت ہے کہ حکومت اردو تعلیم کے مزید ادارے قائم کرے اور اسے روزگار سے جوڑنے کے لیے عملی اقدامات کرے، تاکہ اردو کے قارئین میں اضافہ ہو اور نئی نسل اس سے متعارف ہو سکے۔
معروف ماہر لسانیات اسکوناب کانگس نے اپنی کتاب “Linguistic Genocide in Education” (2000) میں زبانوں کی تیزی سے معدومیت کا ذکر کیا ہے۔ ان کے مطابق، رسمی تعلیم اور ابلاغ زبانوں کے زوال کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔ اگر اردو کو ایک اقلیتی زبان کے دائرے میں محدود کیا گیا، تو یہ بھی اس تباہی کا شکار ہو سکتی ہے۔ اس خطرے سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی تہذیب اور زبان کو گھریلو ماحول میں زندہ رکھیں۔ یہ صرف ایک زبان نہیں بلکہ ہماری نسلوں کی فکری نشوونما، شائستگی، اور تہذیبی ترقی کی ضامن ہے
اردو ہماری شناخت، ہماری تہذیب، اور ہمارے ادب کا حصہ ہے۔ اس کی بقا، فروغ، اور تحفظ کے لیے ہم سب کو مل کر جدوجہد کرنی ہوگی، ورنہ یہ زبان محض سیمیناروں، مشاعروں، اور کتابوں تک محدود ہو کر رہ جائے گی۔
تشکر!
از قلم ✒
پروین شغف
Leave a Reply