rki.news
(Selection/Drop/Selection)}پاک فضائیہ میں کمیشنڈ آفیسر :
انسان کیا سوچتا ہے، کیا کرتا ہے اور کیا ہوجاتا ہے۔ جو احوال میں ہم بیان کرنے چلے ہیں وہ ان تین جملوں میں بند ہے۔ زیرِ نظر تحریر کے اختتام پر آپ کو اندازہ ہوگا کہ بندوں کے متوازی خالقِ حقیقی کا بھی ایک نظام ہے جو عدل و انصاف پر مبنی ہے ۔
جنرل ضیاالحق کے حکم پر پاک فضائیہ میں بھی اکیڈمی کی سطح پر اردو اور عربی ۔ نیشنل لینگویج (ون) اور نیشنل لینگویج (ٹو) نصاب میں شامل کی گئیں۔ ائر فورس نے پہلی بار اردو زبان کی تدریس کے لیے پورے پاکستان سے کمیشنڈ آفیسر کے انٹرویوز کا سلسلہ شروع کیا۔ ہم نے اس عرصے میں کراچی یونیورسٹی سے اردو لٹریچر اور اسلامک ہسٹری میں ایم اے کی اسناد حاصل کرلی تھیں ۔ پوسٹنگ بطور ایجوکیشن انسٹرکٹر (نان کمیشنڈ پوسٹ) کورنگی کریک ہی میں تھی۔
کمیشنڈ آفیسر کا اشتہار دیکھ کر ہم نے بھی قسمت آزمانے کا ارادہ کرلیا۔ ابتدائی انٹرویو ٹیسٹ، میڈیکل کے مراحل طے کرتے ہوئے فائنل انٹرویو والے دن پوری تیاری کے ساتھ سلیکشن بورڈ کے سامنے پیش ہوئے۔ ایک گھنٹہ طویل انٹرویو کے بعد ہم بہت مطمئن تھے۔ غیر سرکاری اطلاع کے مطابق پورے پاکستان میں ہماری پہلی پوزیشن تھی۔ جس یونٹ میں ہماری پوسٹنگ تھی اس کے آفسر انچارج نے ٹریننگ کے دوران زیر استعمال “کٹ” بھی خریدنے کے لیے زور دیا۔ ٹرینگ شروع ہونے سے چند روز پہلے ہمیں اطلاع ملی کہ جنرل ضیا الحق کے ایک رشتہ دار کو منتخب کرلیا گیا جو میرٹ پر دوسرے نمبر پر تھے۔ ہمیں اور ہم سے متعلق ہماری یونٹ کے افراد کو بھی بہت دکھ ہوا۔
ہمارے آفس کی کھڑکی سے نیم کا ایک درخت نظر آتا تھا۔ ہوا میں اس کی شاخیں اور پتے چھوم رہے تھے۔ انہیں دیکھ کر ایسا لگا کہ جیسے یہ ہمیں یاد دلا رہے ہوں کہ اللہ کی مرضی کے بغیر ایک پتا بھی حرکت نہیں کرتا۔ ہمارے اضطراب اور رنج کی کیفیت اس سوچ کے ساتھ بہت حد تک کم ہوگئی۔ اللہ کی یہی مرضی تھی۔
اسی دوران ہماری پوسٹنگ کراچی سے “ریکروٹ ٹرینگ اسکول” کوہاٹ ہوگئی۔ بیوی بچوں کے ساتھ ہم کوہاٹ پہنچ گئے۔ بیٹا چار سال کا اور بیٹی بمشکل ڈیڑھ سال کی۔ بیگم کو بتایا کہ اگر ہمارا سلیکشن ہوگیا ہوتا تو ہم بھی اسوقت یہیں ٹریننگ کرتے ہوتے۔
ہمیں کوہاٹ میں رہتے ہوئے تقریبا چھ ماہ ہوئے تھے کہ کراچی سے اماں کا خط ملا تحریر تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا تم میرے پاس آئے ہو اور ایک کاغذ دکھا کر کہہ رہے ہو کہ یہ میرا کمیشن آرڈر ہے میں منتخب ہوگیا۔ خط ہڑھ کر ہمیں یہی خیال ہوا کہ ماں بے چاری کے ذہن میں ہر وقت یہی خیال گردش کرتا رہتا ہوگا وہی خواب میں نظر آگیا۔ ہم اپنے ذہن سے ہر ایسے خیال کو پہلے ہی جھٹک چکےتھے۔ کوہاٹ ہمیں اس لیے بھی پسند تھا کہ 1973 میں ایجوکیشن انسٹرکٹر کی ٹرینگ یہیں ہوئی تھی۔ بہت سی خوشگوار یادیں اس سے وابستہ تھیں۔
ایک روز ہم یونٹ کی لائبریری میں بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے کہ ایک سینئر آفیسر نے قریب آکر کہا کہ فیروز صاحب مبارک ہو آپ کا نام نئے آفیسرز کورس میں شامل ہے۔ ایک لمحے کے لیے ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ پہلے بھی منتخب ہونے کے باوجود ہمیں کورس میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ اب اچانک بغیر کسسی انٹرویو، ٹیسٹ، میڈیکل کے ایک سال بعد یہ سب کیسے اور کیوں ہوا۔
دوسرے دن ہی ائر ہیڈ کواٹرز سے سلیکشن لیٹر بھی آگیا 7 نومبر 1981 رپورٹنگ ڈیٹ تھی۔ ہمارے سب ساتھی بہت خوش تھے۔ مجھے خوشی کے ساتھ حیرانی بھی تھی۔
وقت بہت کم تھا ۔اپنے موجودہ یونٹ سے بھی ہمیں کوہاٹ ہی میں ٹریننگ سینٹر رپورٹ کرنے کو کہا گیا۔
اسی روز فیملی سمیت کراچی روانہ ہوگئے۔ کراچی پہنچ کر راستے سے مٹھائی لی، اماں سب کو اچانک دیکھ کر حیرت زدہ ہوگئیں۔ ہم نے لیٹر اور مٹھائی اماں کو دیتے ہوئے کہا کہ یہ آپ کے خواب کی تعبیر ہے۔ یہ میرا سلیکشن لیٹر ہے جو آپ نے خواب میں دیکھا تھا۔ اماں نے بیساختہ اللہ کا شکر کہہ کر ہمیں گلے لگالیا۔ ہم دونوں کی آنکھوں کے گوشے بھیگ رہے تھے۔
اسی روز ہم نے ٹرین سے کوہاٹ واپسی کا سفر شروع کردیا۔
6 نومبر 1981 کا یادگار دن۔ شام کو آفیسرز میس کوہاٹ میں ہم اپنا سامان رکھ رہے تھے۔ صبح ٹریننگ سینٹر میں رپورٹ کی۔ اسی روز رینک الاٹ ہوگئے۔ ہمارے ساتھ سول سے کافی تعداد میں لیکچرر، پروفیسرز اور ریڈیو انجینئرز بھی تھے۔ ان لوگوں کے تجربے اور تعلیمی اہلیت کے مطابق ٹرینگ کے دوران ہی رینک دے دیے گئے۔ ہم اب فلائنگ آفیسر فیروز ناطق تھے۔ چند ماہ کی پروفیش ٹرینگ جب اختتام پذیر ہوئی تو پورے کورس میں ہم دو اعزاز کے ساتھ سرِ فہرست تھے۔ Best in Academics & Best Allround ساتھ ہی ہمارے پوسٹنگ۔ پی اے ایف کالج آف ایرو ناٹیکل انجینئرنگ کورنگی کریک ہوگئی۔ کیڈٹس
کو نیشنل لینگویج (ون) پڑھانے کے لیے۔
ہم نے بمشکل ایک ٹرم کیڈٹس کو اردو پڑھائی
ایک روز کمانڈنٹ کے حکم پر ہمیں رجسٹرار کے فرائض سونپ دیے گئے۔ چند روز گزرے ہوں گے کہ ایک فائل میں جنرل ضیاالحق کا آفیشل لیٹر نظر سے گزرا۔ جس کا متن یہ تھا کہ
“ایک آفیسر نیشنل لینگویج (1) کے لیے فوری طور پر پی اے ایف کالج آف ایرو ناٹیکل انجینئرنگ کورنگی کریک میں پوسٹ کیا جائے۔” بہت دیر تک میں خالی خالی نظروں سے وہ صفحہ تکتا رہا۔ متن کے حروف میری نظروں کے سامنے جگنوؤں کی طرح گردش کرہے تھے۔ ذہن میں سال بھر پہلے سلییکٹ ہوکر ڈراپ کردینے کی وجہ اور دوبارہ بغیر کسی مزید انٹرویو ٹیسٹ کے سلیکٹ ہونے کے تمام اسرار و رموز جنرل صاحب کے اس نادر شاہی حکم نے فاش کردیے تھے۔ واہ میرے مالک وا، جس کی وجہ سے ڈراپ ہوا اسی کے قلم سے تونے میرے حق میں فیصلہ لکھوادیا۔۔تیری مصلحت تو ہی بہتر انتا ہے:
جس کو معلوم ہونا
ضروری ہےہر بات کا !
اُس کو معلوم
ہر بات ہوتی رہی
خبر اس کو
دن رات ہوتی رہی !
وہ خود بااثر ہے!
بڑا باخبر ہے!!
(فیروز ناطق خسروؔ)جاری ہے
Leave a Reply