تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
پیارے قارئین!بزم سخن ہو کہ کاروان علم کا تذکرہ کوشش ہوتی ہے کہ ہر پہلو پر بات کی جاۓ۔آج کا کالم ایک ایسی ہستی کے نام جو اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں۔تعلیم کی ماسٹر ڈگری پنجاب یونیورسٹی لاہور سے حاصل کی اور محکمہ تعلیم ہری پور میں مختلف تدریسی اور انتظامی عہدوں پر فائز رہتے ہوۓ قوم کی خدمت کی ۔اور وادی سخن میں قدم رکھا تو شاعروں کے حلقہ میں بے حد مقبول ہوۓ۔ارشاد خان اتمان زئی کسی تعارف کے محتاج بیاں نہیں۔تاہم زندگی کے آئینہ میں ایک نام٬ایک پہچان ضرور رکھتے ہیں۔موصوف کی سرگزشت حیات پر نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی
پیدائش ۔۔ تربیلا ڈیم سے متاثرہ گاؤں کیاء میں ہوئی ۔ریکارڈ کے مطابق
تاریخ پیدائش ۔۔4 اپریل 1965, ہے۔
۔۔ کھلابٹ ٹاؤن شپ ہری پورمیں بستے ہیں۔موصوف نے
1.9.1985میں بطور پرائمری ٹیچر (پی۔ٹی۔سی) ملازمت کا آغاز کیا۔دیانتداری اور فرض شناسی سے ایک جذبہ سے
دس سال تک پرائمری سکول میں قوم کے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔
25-5-1995 کو سینیئر سیکنڈری سکول ٹیچر پروموشن ہوئی اور لگن سے کام کرتے رہے۔اکیس سال تک
اپنا مقدس فرض ادا کرتے رہے
جولائی 2013 سے مارچ 2016 تک اے ڈی ای او پوسٹ پر تعینات ہوۓ
16-3-2016 کو گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول کوٹ نجیب اللہ تعیناتی ہوئی ۔۔۔( بطور ایس ایس اردو)
اپریل 2023 سے اب تک گورنمنٹ ہائیر سکینڈری سکول جٹی پنڈ میں تعیناتی ہوئی۔جتنا عرصہ بھی جہاں بھی رہے مقدس فرض کی ادائیگی کے لیے کوشاں رہے۔آپ کی زندگی میں مشاغل کی جھلک بھی نمایاں رہی۔
اردو ہندکو شاعری ،
ہندکو کی نصاب سازی اور پانچ عدد تدریسی کتب کی تالیف بھی عمل میں لائی گئی ۔۔
نصابی کتب پر ریویو بھی کیا گیا ۔۔
شائع شدہ مجموعہ کلام ” ایک حسین سپنا”
چند منتخب اشعار ۔۔۔
اپنوں سے ملے درد بھلائے نہیں جاتے ۔۔
کچھ دل پہ لگے داغ مٹائے نہیں جاتے ۔۔
اک بار اجڑ جائیں جو نفرت کی ہؤا سے۔۔
اجڑے ہوئے دل پھر سے بسائے نہیں جاتے ۔۔
جلتے رہے ہیں ہم سدا اوروں کی آگ میں ۔۔
اوروں کو اپنی آگ میں جلنے نہیں دیا ۔۔۔
عجب بے مہر لوگوں کی عجب ارشاد بستی ھے۔۔
سناؤں حال دل کس کو کوئی تو دل-جلا ہوتا ۔۔
نہیں تو فیض پائے گا کبھی کم ظرف لوگوں سے ۔۔
یہ پیڑ ایسے ہیں صحراؤں میں جو سایہ نہیں کرتے ۔۔
تجھے ارشاد کہتا تھا خرد شاطر کھلاڑی ھے۔۔
جو بازی دل کی ہاری ھے تو پچھتایا نہیں کرتے ۔۔
کاندھوں کا کال پڑ گیا ارشاد شہر میں ۔۔
خود آپ اپنی لاش اُٹھائے ہوئے ہیں ہم۔۔
دکھ کے بدلے سکھ بیچے جو بنجارے کی صورت ۔۔
اس پاگل دیوانے کو ارشاد زمانہ کہتا ھے۔۔
رکھتے ہیں کچھ مزاج ذرا ہٹ کے دوستو ۔۔
ہم لوگ رہنے والے کھلابٹ کے دوستو ۔۔
مرا فرہاد تیشے سے تو صحرا میں مرا مجنوں ۔۔
محبت کرنے والوں کا یہی انجام ہوتا ھے۔۔۔
مدت کے ایک ترک تعلق کے باوجود ۔۔۔
ہم رنجشیں بھلا کے تیرے در پہ آ گئے ۔۔۔
میں ہی غالب ، حالی ، حسرت ، آتش ، مومن ، داغ ۔۔
ہر سانچے میں ڈھلنے والا میں اک شاعر ہوں ۔۔
تیرامیرا میل ہو کیسے اس دنیا میں ممکن ۔۔
تؤ نازوں میں پلنے والا ، میں اک شاعر ہوں ۔۔
موت تعاقب کرتی ھے جن راہوں پہ ارشاد ۔۔
ان راہوں پہ چلنے والا میں اک شاعر ہوں ۔۔۔
چمپا ، نرگس ، سوسن اور گلنار کی صورت ہیں ۔۔
یار میرے ارشاد سبھی گلزار کی صورت ہیں ۔۔۔
شامل میرے اعلان میں یہ بات بھی کرنا ۔۔۔
کم ظرف کوئی میرے جنازے میں نہ آئے ۔۔۔
ان کے کلمات کس قدر خوبصورت ہیں۔۔
”اپنی طرح کچھ خامیاں بھی ہوں گی بالضرور ۔۔
صد شکر دوستوں میں کوئی کم نظر نہیں۔۔۔
موصوف39 سال 7 ماہ اور 2 دن سروس کرنے کے بعد 3 اپریل کو گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول جٹی پنڈ سے ریٹائر ہو رہے ہیں ۔
9 اپریل کو ادارہ کے طلبہ کی طرف سے اور 10 اپریل کو سٹاف کی طرف سے ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے تقریبات کا انعقاد عمل میں لایا جا رہا ھے۔۔۔موصوف کی خدمات کس قدر اہم کہ ان میں ایک جذبہ کارفرما نظر آتا ہے۔۔
آپ اساتذہ برادری ، کمیونٹی ، شعراء اور طلبہ میں بہت قدر و منزلت رکھتے ہیں ۔۔
نیز 2 اپریل کو ریڈیو ایف ایم سمائیل 88.6 کی طرف سے ارشاد خان اتمانزئی کی تعلیمی اور ادبی خدمات پر خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ایک نشست کا اہتمام کیا گیا ھے ۔آپ کی خوشنما آواز اور طرز کلام کی باد نسیم چلنے سے دلوں کی بے تابیاں ختم ہوتی ہیں۔
رابطہ۔03123377085
Leave a Reply