تیس سال قبل ایک فرد زندگی میں داخل ہوا۔وہ فرد کب زندگی کا حصہ بن گیا اور پھر جسم وروح میں کب سرایت کرگیاپتہ ہی نہیں چلا۔ ہماری ازدواجی سفر کا آغاز آج سے تیس سال پیشتر ہوااور آج عمر کی اس منزل اور پڑاؤ پر حیات آچکی ہے جس کو تجربات،پختگی،سنجیدگی اورمصالحت سے تعبیر کیا جاسکتاہے۔
میاں بیوی کا یہ تعلق محض کوئی رسم یا ضرورت یا تقلید نہیں بلکہ اسلامی نقطہ نظرسے شادی نصف ایمان تو دنیاوی اعتبارسے یہ تعلق آپ کے کردار کے لیے ایک ڈھال کا کام کرتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا (ومن آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجالتسکنوا الیہا وجعل بینکم وبینہ مودۃ ورحمۃ ان فی ذلک لآیات لقوم یتفکرون) (سورہ روم آیت ۱۲) ترجمہ:”اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی،یقینا اس میں بہت سے نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور وفکر کرتے ہیں“۔
ایک اجنبی شخص کے ساتھ عورت محض چند جملوں کی ادائیگی کے بعد تاحیات اُسی کی ہوجاتی ہے، بظاہر یہ جملے(الفاظ) معمولی نوعیت اور عام فہم ہوتے ہیں لیکن انھی لفظوں سے اس کائنات کا نظام اللہ تعالی نے جاری وساری فرمایا ہے۔ عورت ایک خالص قربانی اور ایثار کا نام ہے۔اپنی دنیا،والدین،بھائی بہن غرضیکہ سب کچھ ایک شخص کے لیے چھوڑآتی ہے۔کبھی اس کیفیت کو مردوں کو بھی محسوس کرنا چاہئے۔حدیث میں آتا ہے (رفقا بالقواریر) عورت کو آبگینے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ان آبگینوں کی حفاظت کرنی چاہئے۔حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اکمل المؤمنین ایمانا احسنہم خلقا،وخیارکم خیارکم لنسائکم(ترمذی) ۔
شبنم کی نمی،گلاب کی خوبصورتی، چنبیلی کا بانکپن،کائنات کی رنگینی، شمس وقمر کی تابناکی،خوشبو کی نزاکت، لہجہ کی آفرینی،سمندر کی گہرائی، غروب آفتاب کا حسن، طلوع صبح صادق کی دلکشی کو اگر یکجا کردیا جائے تو عورت جیسا”تقدس“وجود ظہور پذیر ہوتاہے۔یہ غموں کا مداوا بھی ہے، یہ علاج بھی ہے، یہ دوا بھی ہے، یہ غذا بھی ہے، یہ روح کی تسکین تو جسم کی راحت بھی ہے،یہ نرس بھی ہے یہ ڈاکٹر بھی ہے، یہ گھر کی رانی بھی ہے اورآپ کے گھر کی محافظ بھی،یہ آپ کو ٹوٹ کر چاہنے والی اس زمین پر اکلوتی شخصیت ہوتی ہے جو آپ کا ساتھ اخیر وقت تک نبھاتی ہے۔دن بھر کی تھکن،مسائل،غم روزگار،غربت،معذوری،بیماری،ذہنی کوفت،تھکن،تفکرات ہر قسم کی الجھن کا مداوا مالک کائنات نے عورت کی شکل میں رکھا ہے۔یہ وہ ہم سفر ہے جو آپ کی غیر حاضری میں آپ کے مال،آپ کے گھر،آپ کی اولاداورعصمت کی حفاظت کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے خندہ پیشانی نہ صرف پورا کرتی ہے بلکہ اپنے لیے سعادت سمجھتی ہے۔خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کو اچھا جیون ساتھی میسر آجائے اوراچھے ساتھی کے نہ ملنے کی صورت میں یہ معاملات برعکس بھی ہوتے ہیں۔لیکن میرا ماننا ہے گھر مرد کی فراست و ذہانت اور عورت کی قوتِ برداشت سے چلتا ہے۔مرد کی قوت فیصلہ جہاں کمزور پڑتی ہے یا پھر عورت کی قوت برداشت جہاں ڈھیلی پڑتی ہے وہیں عائلی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔بیوی وہ شخصیت ہے جو زندگی کی مشکلات میں شوہر کا ہاتھ تھام کر اس کا حوصلہ بڑھاتی ہے۔
مرد کو اللہ نے حاکم اس لیے نہیں بنایا کہ وہ عورت کے ساتھ ماتحت یا نوکر وں جیسا سلوک روا رکھے بلکہ اللہ کی جانب سے یہ منصب آپ کو قوت فیصلہ،تحمل اور سمجھداری کی بنا پر عطا فرمایا گیاہے۔ایک اچھی ازدواجی زندگی کا گُرایک مسلمان کے لیے حیات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہے،اسی پر عمل پیرا ہوکی ہی ایک کامیاب ازدواجی زندگی گذاری جاسکتی ہے۔
کرہ ارض پر مالک ارض وسما نے جو نعمتیں پیدا کیں ہیں ان میں سب سے خوبصورت نعمت ”عورت“ہے۔
اخیر میں اپنی شریک حیات کے نام یہ ایک چھوٹی سی نظم پیش ہے ؎
“تو کہانی کا مرکزی حصہ
تو ہی کردار ہے کہانی کا
تو ہی شامل ہے میری رگ رگ میں
تو ہی تسکین جان ودل ٹھہری
محور زیست ہے ترا پیکر
تو مرے روز وشب کی زینت ہے
تو نہ ہو تو جہان سونا ہے
ترے ہونے سے ساری رونق ہے”
خدا سب گھروں کی رونقوں کو سلامت رکھے آمین
ندیم ماہر
دوحہ / قطر
Leave a Reply