Today ePaper
Rahbar e Kisan International

استقبالِ رمضان۔ ایک داڑھ یا آدھے دن کا روزہ۔ لوٹے کی ٹونٹی سے چُھپ کر پانی پینا۔ ابا کا غصہ ختم۔ افطاری کا مزہ سحری سے سوا۔ رمضان سب مسلمان بھائی بھائی

Articles , Snippets , / Thursday, April 17th, 2025

rki.news

رجب کے مہینے ہی سے استقبالِ رمضان کا چرچا ہونے لگتا تھا:

سِوا لطف، شعبان و رمضان کا ہے
ابھی سے یہ ماہِ رجب کچھ کہے ہے
( ف ن خ)

کھانے پینے میں احتیاط کی تاکید۔ زیادہ ٹھنڈا پانی مت پیا کرو گلا خراب ہوجائے گا، اور یہ اچار تو بالکل نہیں چھونا، اماں کی سرزنش، خاص طور سے ہم چھوٹے بھائی بہنوں کو۔

روزے ہم پر فرض نہیں ہوئے تھے لیکن جب سب سحری کو اٹھیں تو ہم کسے رہ سکتے تھے۔ آنکھیں ملتے اٹھ بیٹھتے اماں لاکھ چاہتیں کہ بچے سوتے رہیں تاکہ سکون سے کام نبٹ سکے۔ یہی کچھ رجب میں ہوتا جب امام جعفرِ صادقؑ کے وسیلے سے کونڈوں کی نیاز ہوتی۔ اللہ کی بارگاہ میں حاجت روائی کے لیے۔

ابا اماں اور ہم سات بھائی بہن، اماں پراٹھے بناتے نہیں تھکتیں۔ آلو کی قتلیاں یا کوئی اور سالن، پھینیاں۔ آملیٹ۔ اچار۔ نمکین لسی ابا کے لیے۔ ہمارا اصرار ہوتا کہ انڈا فرائی ہو۔ نہ پراٹھا پورا کھایا جاتا نہ انڈا۔ ڈانٹ ڈپٹ ضرور کھاتے۔ کیا ضرورت تھی ضد کرنے کی، اب کون کھائے گا یہ جھوٹا۔ ابا کے لہجے می اس وقت غصہ نہیں ہوتا تھا۔
ہم ویسے بھی کون سا پورا روزہ رکھتے۔ شروع سالوں میں ” ایک داڑھ کا روزہ یا پھر آدھے دن کا۔
خیرپور میں مکان پرانے انداز کے ہوتے تھے۔ دروازے اور دالان کے درمیان کشادہ صحن۔
دروازے کے پاس” پاخانہ یا بیت الخلا(ٹوائلٹ)، غسل خانہ، باورچی خانہ”۔۔اسی ترتیب سے صحن میں بنے ہوتے۔
چھوٹےبھائی بہن کا تو پتہ نہیں جب تک روزے ہم پر فرض نہیں ہوئے تھے تو ہم ایک داڑھ یا آدھے دن کے روزے کے بہلاوے میں نہیں آتے تھے۔ دن میں کئی بار پاخانے میں جاکر لوٹے کی ٹونٹی سے منہ لگا کر غٹ غٹ پانی پی جاتے۔ منہ دامن سے پونچھ کر باہر نکل آتے کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا۔
ویسے روزوں میں سحری اور سحری سے بڑھ کر افطاری کا بڑا مزہ ہوتا تھا۔
چند سال بعد پورا روزہ رکھنے لگے۔ کبھی کبھی ابا یا بڑے بھیا کے ساتھ محلے کی مسجد میں چلے جاتے۔ نماز سے پہلے سب کے سامنے رنگ برنگی افطاری کی پلٹیں سجی ہوئی بہت اچھی لگتیں۔ مغرب کے بعد افطاری کی جاتی۔ ایک بار ہماری دوسری طرف ایک بزرگ بیٹھے تھے انہوں نے اپنی پلیٹ کی کھجوریں اور کچھ سخت چیزیں ہماری پلیٹ میں رکھ دیں۔شاید چبانے میں مشکل ہوتی ہو۔ اس کے بعد جب کبھی روزوں میں ہمارا مسجد جانا ہوا کوشش کرکے ہم کسی ایسے ہی بزرگ کے پاس بیٹھتے۔
سحری کے وقت ہماری سحر خیزی کی عادت کام آتی۔ دل چاہتا کہ باقی بھائی بہن نہ اٹھیں۔ جب کسی وجہ سے ہم اکیلے ہی روزہ رکھتے تو سحری افطار میں بہت خاطریں ہوتیں۔ ہمیں بھی خاطر (پٹائی والی نہیں) کروانے میں بہت مزہ آتا۔ البتہ تنبیہ اس بات کی ہوتی کہ رمضان کی طرح باقی دنوں میں بھی نماز کی پابندی ضروری ہے۔
اللہ نے رمضان المبارک میں روزے فرض کرکے ہم مسلمانوں پر کتنا بڑا احسان کیا ہے۔ روزے کو جسم کی زکات کہا جاتا ہے۔ آج جدید سائننس صحت کی بقا کے لیے سال میں ایک ماہ چند گھنٹوں کے اس فاقے کی تائید کرتی ہے۔
اس کا ایک اصلاحی پہلو یہ بھی ہے کہ فرقہ پرستی کی لعنت اس ماہ میں ختم ہوجاتی ہے۔ کسی غیر ملک یا اپنے ملک مہں جگہ جگہ روزہ افطار کا اہتمام نظر آئے گا۔ سڑکوں پر افطار کے وقت بچے بڑے روک روک کر افطار کا سامان تھماتے نظر آئیں گے۔ ان دنوں کوئی آپ سے یہ نہیں پوچھے گا کہ کس مسلک اور فقہ کے پیروکار ہو۔ سب مسلمان ایک لڑی میں پروئے ہوئے گہرِ آبدار نظر آتے ہیں۔ کاش کاش یہ آپس کی یگانگت ہم مسلمانوں میں بارہ مہینے نظر آئے۔۔آمین:

” ٹوکرا بھر پیار “

شام کا وقت تھا
کار میں اپنی میں
تیز سے تیز تر
اپنی دھن میں مگن
گھر کی جانب رواں
راہگیروں کی اس بھیڑ کے درمیاں !

یک به یک کچھ جوانوں نے
رستہ مرا روک کر
میرے ہاتھوں میں
سامان افطار کا دے دیا !
گھر پہنچنے تلک بچے ، بوڑھے جواں
جا بجا
روزہ داروں کی خاطر میں
مشغول تھے
نیکیوں کو کمانے میں مصروف تھے !

روزہ داروں میں سنی ، شیعہ اور
دیگر مسالک کے بھی لوگ تھے
کسی نے کسی سے نہ تصدیق کی !
نہ تفریق کی !
بس مسلمان ہونے کے ناتے جو آیا نظر
بھر دیا اُس کی جھولی میں سامان افطار کا !
نذر اس کی کیا ٹوکرا پیار کا !!
(فیروز ناطق خسروؔ)
{مجموعہء کلام “ہزار آئینہ”}


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International