rki.news
(تحریر احسن انصاری)
غزہ میں جاری انسانی بحران ایک مرتبہ پھر دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے جب اسرائیلی فوج نے گلوبل صمود فلوٹیلا کو اپنی کارروائی کا نشانہ بنایا۔ یہ پرامن قافلہ خوراک، ادویات اور پینے کا پانی لے کر محصور فلسطینی عوام تک پہنچنے جا رہا تھا۔ اس واقعے نے ایک بار پھر اسرائیل کے محاصرے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو عالمی ایجنڈے پر نمایاں کر دیا ہے۔
گلوبل صمود فلوٹیلا میں دنیا کے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکن، ڈاکٹر، صحافی، سماجی نمائندے اور امن کے داعی شامل تھے۔ ان سب کا مقصد ایک ہی تھا۔ غزہ کے عوام تک انسانی امداد پہنچانا اور اس ناکہ بندی کو چیلنج کرنا جس نے دو ملین سے زائد فلسطینیوں کی زندگی کو اذیت ناک بنا دیا ہے۔ یہ قافلہ نہ تو کسی فوجی مقصد کے لیے تھا اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت یا گروہ کا نمائندہ تھا۔ یہ صرف اور صرف انسانیت کے جذبے کا اظہار تھا۔ جہازوں پر خوراک، صاف پانی، طبی امداد اور ایسی ادویات موجود تھیں جن کی غیر موجودگی نے غزہ میں زندگی کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ اس مشن کو ’’امید اور بقا‘‘ کی علامت سمجھا جا رہا تھا۔
اطلاعات کے مطابق اسرائیلی بحری افواج نے قافلے کو غزہ کے ساحل تک پہنچنے سے پہلے ہی روک لیا۔ جہازوں پر زبردستی چڑھائی کی گئی، کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا اور امدادی سامان ضبط کر لیا گیا۔ مختلف ذرائع کے مطابق قافلے میں شامل مسافر پرامن انداز میں اپنی منزل کی طرف بڑھ رہے تھے لیکن ان کی کوشش کو راستے میں روک دیا گیا۔
یہ پہلا موقع نہیں جب اسرائیل نے انسانی ہمدردی کے قافلوں کو روکا ہو۔ ماضی میں بھی کئی امدادی جہازوں کو اسی طرح روک کر ان کا سامان ضبط کیا گیا ہے۔ یہ واقعات اسرائیل کے اس موقف کو ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ہر قیمت پر غزہ کی ناکہ بندی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
غزہ گزشتہ کئی برسوں سے مسلسل محاصرے میں ہے لیکن حالیہ مہینوں میں حالات انتہائی ابتر ہو گئے ہیں۔ غذائی اجناس نایاب ہیں، ادویات ختم ہو رہی ہیں، اسپتال تباہی کے دہانے پر ہیں اور بجلی کی بندش نے زندگی مزید دشوار بنا دی ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر اداروں نے بارہا کہا ہے کہ غزہ موجودہ حالات میں ’’ناقابلِ رہائش‘‘ ہو چکا ہے۔
معصوم بچے بھوک سے نڈھال ہیں، حاملہ خواتین کو علاج میسر نہیں، بزرگوں کو دوائیں نہیں ملتیں اور پانی کی قلت نے ہر گھر کو متاثر کیا ہے۔ یہی پس منظر ’’گلوبل صمود فلوٹیلا‘‘ کی اہمیت کو بڑھاتا ہے۔ یہ قافلہ نہ صرف سامانِ حیات لے کر جا رہا تھا بلکہ یہ اس بات کا اعلان بھی تھا کہ دنیا کے ضمیر نے اب بھی غزہ کو فراموش نہیں کیا۔اسرائیلی اقدام کے بعد دنیا بھر میں شدید ردِعمل سامنے آیا۔ سب سے پہلے مسلم دنیا نے اس کی مذمت کی۔
پاکستان نے سب سے پہلے آواز بلند کی۔ اسلام آباد سے جاری وزارتِ خارجہ کے بیان میں اسرائیلی اقدام کو ’’وحشیانہ اور غیر قانونی‘‘ قرار دیا گیا۔ پاکستان نے کہا کہ یہ قافلہ مکمل طور پر انسانی بنیادوں پر روانہ ہوا تھا اور اسے روکنا بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
پاکستان کی اعلیٰ قیادت نے بھی اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ صدر پاکستان اور وزیراعظم پاکستان نے اپنے اپنے بیان میں کہا کہ انسانی ہمدردی کے اس پرامن قافلے کو نشانہ بنانا ’’انسانی اقدار کی کھلی تضحیک‘‘ ہے اور عالمی برادری کو اس پر فوری کارروائی کرنی چاہیے۔ انہوں نے زور دیا کہ فلسطینی عوام کو ان کے بنیادی انسانی حقوق فراہم کیے جائیں۔
ترکی نے بھی اس کارروائی کو ’’ریاستی قزاقی‘‘ قرار دیا۔ جنوبی افریقہ نے اسے عالمی انسانی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کہا۔ آئرلینڈ نے اسے ’’شرمناک‘‘ قرار دیا جبکہ ناروے، اسپین اور ملائیشیا نے اسرائیل کے خلاف تحقیقات اور جواب دہی کا مطالبہ کیا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی ’’گہری تشویش‘‘ کا اظہار کیا اور کہا کہ انسانی امداد کی راہ میں رکاوٹ کسی صورت قبول نہیں کی جا سکتی۔ کئی ممالک نے آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا تاکہ اسرائیل کی کارروائی کو عالمی عدالت میں چیلنج کیا جا سکے۔
عرب اور مسلم دنیا میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ قاہرہ، استنبول، دوحہ اور جکارتہ سمیت کئی شہروں میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور نعرے لگائے: ’’غزہ کو آزادی دو‘‘ اور ’’امداد کوئی جرم نہیں‘‘۔ یورپ اور امریکا میں بھی عام شہریوں نے ریلیاں نکالیں اور اپنی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کی حمایت بند کی جائے۔
قانونی ماہرین نے اسرائیل کے اس اقدام کو اقوام متحدہ کے ’’قانونِ سمندر‘‘ کی خلاف ورزی قرار دیا۔ اس قانون کے مطابق شہری جہازوں کو روکنا یا ان پر قبضہ کرنا بین الاقوامی جرم ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے مطالبہ کیا ہے کہ اس معاملے کو فوری طور پر بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) میں لے جایا جائے۔ ان کے مطابق انسانی امداد کو روکنا اور کارکنوں کو حراست میں لینا ’’جنگی جرم‘‘ کے زمرے میں آتا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے ’’گلوبل صمود فلوٹیلا‘‘ کو روکنا اور اس کا سامان ضبط کرنا محض ایک کارروائی نہیں بلکہ اس بڑے ظلم کی علامت ہے جو فلسطینی عوام روزانہ سہتے ہیں۔ عالمی سطح پر اٹھنے والی یہ مذمت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اب شاید دنیا اسرائیل کے اقدامات پر خاموش نہیں رہ سکتی۔
یہ لمحہ دنیا کے لیے ایک امتحان ہے۔ کیا عالمی برادری انسانی بنیادوں پر چلنے والے قافلوں کو مجرمانہ کارروائیوں کا نشانہ بنتے دیکھتی رہے گی یا پھر انصاف، وقار اور انسانی حقوق کے اصولوں پر کھڑی ہو گی؟ ’’صمود فلوٹیلا‘‘ کے کارکنوں نے دنیا کو یہ یاد دہانی کرائی ہے کہ ظلم کے مقابلے میں خاموشی سب سے بڑی شکست ہے۔ جب تک غزہ آزاد نہیں ہوتا اور فلسطینی عوام کو ان کے بنیادی حقوق نہیں ملتے، ’’صمود فلوٹیلا‘‘ کی یاد ایک استعارہ بنی رہے گی.
Leave a Reply