سندھ کے راجہ داہر کے بارے میں متضاد رائے ہیں ۔ ۔ ۔ مگر اتنی بات یقیناً ہے کہ سندھ کے جھنگلات میں ڈاکؤں کا راج تھا (جیسا کہ آج بھی ہے ) اور ساحل کے کنارے ہونے کی وجہ سے وہ قزاقی بھی کرتے تھے ، مسلمانوں کا پیشہ زیادہ تر تجارت تھا اور اموی خلیفہ نے ایک لُٹنے والے مسلمان تجارتی قافلے کی ایک لڑکی کے پُرسوز خط پر بغداد کے انیس سالہ نوجوان محمد بن قاسم کو سندھ کی مہم سپرد کی ، لیکن حملے سے پہلے راجپوت راجہ داہر کو خلیفہ نے کہا کہ وہ ان ڈاکؤں کی سرکوبی کرے اور مسلمانوں کا لوٹا ہوا مال واپس کروائے مگر راجہ داہر نے اسکے پیغام پر توجہ نہیں دی اور محمد بن قاسم ٧١١ع میں دیبل کے راستے راجہ داہر پر حملہ آور ہو کر اسے شکست دی اور کشمیر تک کے علاقے کو فتح کر لیا ، محمد بن قاسم آگے بڑھنے کا ارادہ رکھتا تھا ، مگر خلیفہ ولید نے اسے واپس بلا لیا ، کچھ روایات کے مطابق اسے بغداد پہنچنے سے پہلے ہی قتل کر دیا گیا ۔ ۔ ۔ ۔
اموی سلطنت کی بنیادیں کھوکھلی ہو چکی تھیں ۔ ۔ جسکی وجہ سے مسلمان سندھ پر اپنا تسلط زیادہ دیر تک برقرار نہ رکھ سکے ۔ ۔ اور یوں ہندوستان میں چھلکیا کی سلطنت نے عروج لیا جسنے تقریباً پینتیس سال تک حکومت کی ، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ موجودہ پاکستان علاقوں پر حکومت نہیں چلا سکا ۔۔ ۔ حتہ کہ اموی اور عباسی خلفہ نے اسکو اپنے زیر نگیں رکھا (سندھ کو) جسکی وجہ سے ان علاقوں میں مسلانوں کی آمد و رفت بڑھتی رہی ۔ ۔ ۔ جسنے یہاں کے لوگوں پر بہت اچھا اثر ڈالا اسی وجہ سے جب محمود غزنوی نے ١٠٠١ ع میں راجہ جے پال کو شکست دی اور سومنات کا مندر توڑا تو عوامی طور پر اسے بہت پزیرائی ملی ۔ ۔ ۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ راجہ اور اسکے حمایتیوں کی طرف سے اسے بہت مزاحمت ملی ، جسکی وجہ سے اسے ہندوستان پر سترہ حملے کرنے پڑے ۔ محمود غزنوی نے مسلمانوں کے لئے ہندوستان کی وا کر دی تھی ، وہ دروازہ جسے محمد بن قاسم نے کھولا تھا ۔ ۔ اسکا مکان ١٠٠١ میں محمود غزنوی نے تعمیر کیا اور اس تکبیر کے نعرے کی بازگشت آج بھی ہمارے کانوں میں سنائی دیتی ھے ۔ ۔ ۔ ۔
(جاری ہے )
Leave a Reply