تازہ ترین / Latest
  Wednesday, January 8th 2025
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

اس دادی کی پوتی ہوں میں

Articles , Snippets , / Tuesday, January 7th, 2025

ادلے کا بدلہ، رہن سہن کے تقاضوں میں سے ایک ہے، انسانوں کی سرشت میں عجب سا تکبر اور غروری ٹانکا ہے جو کسی ایسے دھاتی مادے سے بنا ہوا ہے کہ جس کی سختی کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا، اس میں جست، زنک، کوپر اور پلاٹینم کی کچھ ایسی خاص آمیزش ہے جو اسے گردن میں پڑے ہوے سریے کی مانند شدید اکڑوں بناتی اور دکھاتی ہے اگر آج میں آپ کو سچ بتاوں تو اگر ہم انسانوں کے بس میں ہو تو ہم دوسرے انسانوں پہ زندگی اس طرح سے تنگ کر دیں کہ ان کا کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا بند کر دیں ان کی سانس لینا بند کر دیں ان کا ہنسنا کھیلنا بند کر دیں، ہمارا بس ہی تو نہیں چلتا ناں ہمارے جیون کی گاڑی کے انجن کا کنٹرول اس پاک ذات کے ہاتھوں میں ہے جو وحدہ لاشریک ہے، جو خالق کون و امکاں ہے، جس کی ساری سلطنت اس کے اشارہ کن کی محتاج ہے وہ جو بھوکے کو نوالہ دیتا ہے اور بیمار کو شفا.
انسانی خمیر میں کچھ اس طرح کی کمینگی کی آمیزش کر دی گءی ہے کہ وہ برای کا راگ الاپنے سے اپنے آپ کو باز رکھ ہی نہیں سکتا. کم کم ہی لوگ ہیں جن کے خون میں نیکی اور اچھای کی دیوی اپنی مخملیں آنچل میں یوں سمٹ کے بیٹھی ہوتی ہے، کہ اس کی نرمی اور حلاوت روح
سے ہوتی ہوی گرد و نواح میں اپنی اچھای کی ہری اور نیلی شعاوں سے ماحول کو روشن کر دیتی ہے، قرب و جوار کو جگمگا دیتی ہے، . ایسے لوگ کسی دعا کی مانند کسی بزرگ کی دعا کے جیسے، کسی سوتے ہوے بچے کی معصوم مسکراہٹ کی طرح ایک الگ ہی جہان ہوتے ہیں نیلا آسمان ہوتے ہیں. ایسی تمام روحوں کے ناطے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پہ اللہ پاک سے ہوتے ہیں وہ نور ہی نور اور رحم ہی رحم ہوتے ہیں اللہ پاک کی آواز بن کے صحراوں میں نغمہ صحرای بن کے گونجتے ہیں اور میدانی علاقوں میں سر سبز کھیتوں کی ہریالی کی صورت جابجا لہلہاتے ہیں، چپکے چپکے مسکراتے ہیں، آپ بھی اپنی زندگی کی کسی نہ کسی منزل میں ایسے کسی اللہ والے، ایسے کسی نیک انسان سے ضرور ملے ہوں گے.
چاند تارے
کوی جگنو تھے یا ستارے تھے
ہمیں کچھ لوگ بڑے پیارے تھے
صبح نو کے اجالے جیسے تھے
میری روح کے حوالے جیسے تھے
تھے میرے جسم کی گم گشتہ کڑی
لوگ تو میرے دیکھے بھالے تھے
شب ظلمت کے وہ اجالے تھے
ہاے کتنے مجھے وہ پیارے تھے
صلہ رحمی کے لبادے میں
وہ میرے اپنے، میرے پیارے تھے
وہ جو صلہ رحمی کا مینارہ تھے وہ جو قدرت رکھنے کے باوجود، وہ جو لہو لہان ہونے کے باوجود رحم ہی رحم تھے مینارہ جودو سخا تھے وہ جب طایف کے چند سر پھرے لوگوں کے تمسخر اور ناروا سلوک کا شکار ہوے رحمت الٰہی جوش میں آی اور فرمایا گیا کہ اگر آپ کہیں تو شہر طایف کے گستاخ مکینوں کو دو پہاڑوں کے بیچ میں پیس دیا جاے. رحمت العالمین آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان تمام سرکش لوگوں کو معاف فرما دیا جو آپ کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہوئے تھے. اور جب فتح مکہ پہ دشمنوں کے دل خوف سے دھڑک رہے تھے کہ اللہ جانے اب رسول عربی کیسے گن گن کے بدلے لیں گے. تو رسول اکرم نے مکہ کو جاے امن قرار دے دیا یہی ہے صبر کی انتہا اور برداشت کی حد.
کون دشمن کو اپنے معاف کرے
وہ محمد ہیں، آمنہ کے لعل
آپ نے دیکھا ہوگا خاندانوں کے خاندان آپسی لڑای جھگڑوں میں گاجر مولی کی طرح کٹ مر جاتے ہیں مگر نہ بدلے کی آگ ٹھنڈی ہوتی ہے نہ کوی کسی کو معاف کرنے کا ظرف رکھتا ہے اور دنیا اسی نفرت کے زہر میں بچھے ہوے تیر کھا کھا کے مزید لہو لہان ہوی جاتی ہے. وہ کہتے ہیں ناں کہ ہر نقصان بھلے وہ جانی ہو یا مالی اس کا بدلہ پورا پورا دے کر لڑای کو ختم کیا جا سکتا ہے، کان کے بدلے کان، ناک کے بدلے ناک اور جان کے بدلے جان ہاں اگر کوی بڑے دل والا قاتل کو معاف کر دے تو اس کے ظرف کو سلام.
سطوت آرا کی دادی مہتاب آرا چھ بھائیوں کی اکلوتی بہن تھیں لایق فایق، ہر فن مولا مہتاب بیگم والدین کی آنکھوں کا تارا تو تھیں ہی، بھائیوں کے دل کا قرار بھی تھیں، نسلوں سے چلی آنے والی دشمنی انکی اور ان کے خاندان کی جان کو سولی پہ ٹانگنے کے لیے کافی تھی. مہتاب بیگم کے چھوٹے بھای احمد سلطان علیگڑھ یونیورسٹی سے بی. اے کے ایگزامز دے کے ڈیرہ دایم پہ اپنے اہل و عیال کے پاس آے ہوے تھے. رات کو سب خوش گپیاں کرتے کرتے سو گیے تھے کسی کو خبر نہ تھی کہ جیونہ خاندان کی خوشیوں پہ اوس پڑنے والی ہے دو بجے فایرنگ کے شور سے سب اٹھ گیے دشمن اپنی چال میں کامیاب ہو چکا تھا ادلے بدلے کی آگ ایک اور چراغ کو روشن ہونے سے پہلے ہی گل کر چکی تھی ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اب جیونوں کے جوان
ورکوں کے گھر ہلہ بول دیتے اور یہ ادلے بدلے کی ریت جاری رہتی، مگر ماہتاب بیگم کی عقل، سمجھداری، صبر ادلے بدلے کی بھاونا کے آگے سیسہ پلای ہوی دیوار بن کے کھڑی ہو گءی. . ماہتاب بیگم نے پوری برادری کو اپنے چھوٹے نوجوان بھای کے قتل ناحق پہ اس بات پہ راضی کر لیا کہ آیندہ سے قتل و غارت گری کو بند کر دیا جاے ہم نے اپنے بھائی کے قتل ناحق پہ صبر کر لیا ماہتاب بیگم نے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے ڈیرہ دایم سے نکال کے شہروں میں بھیج دیا. ہم پڑھتے پڑھاتے اونچی اونچی پوسٹس پہ براجمان ہوے ڈیرہ دایم کو چھوڑ کر پوری دنیا میں پھیل گیے ہاں مجھے فخر ہے کہ میں اس دادی کی پوتی ہوں جس نے قتل و غارت کے رسم و رواج پہ صبر کے پھاہے رکھنے کا رواج ڈالا تھا ہاں ہم سب اسی صبر کے خمیر میں گندھے ہوے اس نفسانفسی کی دنیا میں وہ معدودے چند لوگ ہیں جن کے دم قدم سے کاروان حیات کا امن ایمان قائم ہے اس دایمی امن کے قیام اور استحکام کے لیے خلوص دل سے دعائیں.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendoctorpunnam@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International