rki.news
کبھی کبھی رشتوں کی مالا کو لڑی کی شکل میں پروے رکھنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتا ہے، یہ بات حلق سے اترنی محال ہو جاتی ہے کہ ایک ہی والدین کی اولادیں، ایک ہی گھر میں رہنے والے، ایک دوسرے کے ساتھ کھیل کر پروان چڑھنے والے، ایک دوسرے کے بستر میں گھس کے کہانیاں سننے سنانے والے، لڑ جھگڑ کے مان جانے والے، ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں ساتھ ساتھ چلنے والے کیسے ایک دوسرے سے نہ صرف میلوں، کوسوں کی دوری پہ ہو جاتے ہیں بلکہ ایک دوسرے سے بیگانے اور انجانے بھی ہو جاتے ہیں، لیکن آپ بھلے مانیں یا نہ مانیں ایسا ہو جاتا ہے وہ بہن بھای جو اپنے رشتوں کی مضبوطی میں مزید اضافہ کرتے ہیں وہ عظیم تر ہوتے ہیں اور وہ جو اپنے بہن بھائیوں والے رشتوں کی خوبصورتی کو احسن طریقے سے نبھاتے ہیں وہ بھی قابل تحسین ہیں مگر بدنصیب ہیں وہ بہن بھائی جو والدین کے گزر جانے کے بعد اپنی اپنی گھر گرہستی میں اس طرح غرق ہو جاتے ہیں گویا کسی اندھی دلدل میں پھنس جاتے ہیں جہاں سے واپسی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اور اگر سچ پوچھیں تو وہ خود بھی اس دلدل سے باہر آنے کے لیے رضا مند نہیں ہوتے، ویسے تو ہم سب اپنے اپنے پنجرے خود ہی چنتے ہیں مگر سمجھدار لوگ اپنے نیے ہی نہیں پرانے رشتے بھی خوب نبھاتے ہیں، ایسے لوگ ہر فن مولا ہوتے ہیں، ایسے لوگ دھرتی کا مان اور شان ہوتے ہیں، اصل میں یہی وہ لوگ ہیں جن کے دم قدم سے کاروبار حیات رواں دواں ہے، ان کے چہرے روشن، دل کشادہ اور دروازے ہر کس و ناکس کے لیے کھلے ہوتے ہیں، یہی لوگ کاینات کے ماتھے کا جھومر اور انسانیت کا وقار ہیں. خزاں میں بھی بہار ہیں،
لیکن جس نفسانفسی اور بھاگم دوڑ کے زمانے ہمیں نصیب ہوے، ان میں کیا اپنے، کیا بیگانے سب ہی ڈگری اور بگڑی بنانے پہ تلے ہوئے ہیں اب اس ڈگری اور بگڑی کو بنانے کے لیے بھلے جتنی بھی قربانی دینی پڑے، چلے گی، سانیہ اسلام آباد بیاہ کر آی تو مانو اسلام آباد ہی کی ہو کر رہ گءی، گھر داری میں ماہر اعلیٰ تعلیم یافتہ, سگھڑ عورت نے اپنے گھر، گھر والے اور بچوں پہ تن من وار دیا، اچھی بات تھی سب عورتوں کو اپنے اپنے گھروں سے اتنا ہی مخلص ہونا چاہیے جتنی کہ سانیہ حصام تھی، مگر انسان اپنی زندگی میں خوش اور مطمئن اسی وقت رہ سکتا ہے جب وہ ماضیِ، حال اور مستقبل تینوں زمانوں کے رشتوں، یادوں ،سوغاتوں اور مرادوں کو ساتھ لے کر چلے، اگر کسی ایک زمانے سے بھی ناطہ چاہتے یا نہ چاہتے ہوے، جانے یا انجانے میں ٹوٹ جاے، تو مان لیجیے گا کہ آپ کے دماغ کے کچھ پرزے ڈھیلے ہیں اور دماغی پرزے ڈھیلے نہ ہیں تو اللہ پاک آپ سے کسی نہ کسی صورت ناراض ہے، جو آپ کی مت اتنی ماری جا چکی ہے کہ آپ گھر آی محبت، پیار اور خلوص کو ٹھکرانے کے مرتکب ہی نہیں ہوتے بلکہ اس پہ اتراتے بھی پھرتے ہیں.
اس نے ٹھکرا دیا خلوص میرا
پھر اسے خاک نیند آنی تھی
،تو کچھ بھی کر لیجیے کسی کے خلوص اور خلوص نیت پہ شک کرنا کفران نعمت کے مترادف ہے، جب کوی آپ کو یاد کرتا ہے اپنی دعاووں میں اور محبت کا یقین دلاتا ہے ا پنےتحفے تحائف سے تو ہمیں اس کی محبت اور خلوص کے لیے اس کا احسان مند ہونا چاہیے.
سانیہ ایک بھرے پرے گھر سے تھی چار بہنوں اور دو بھائیوں میں اس کا نمبر تیسرا تھا، اس سے چھوٹی ایک بہن اور پھر دو بھائی، اچھی خاصی پڑھی لکھی فیملی تھی، تمام ہی بہن بھائی شادی کے بعد اپنی اپنی جگہ پہ شاداں و فرحاں تھے، والدین کی حادثاتی نے سب کو ایک عجب طرح کی محرومی اور خوف میں مبتلا کر دیا تھا، مر تو ایک نہ ایک دن ہم سب نے ہی جانا ہے مگر یہ حادثاتی موت پیچھے رہ جانے والوں کی زندگیوں میں کچھ ایسے خلا بھر دیتی ہے جو چاہ کے بھی پورے نہیں ہو پاتے، تو اس خاندان کی بڑی بیٹی نے اپنے بہن بھائیوں کے ہر دکھ سکھ میں ساتھ دیا بھلے اسے کسی نے بڑا مانا یہ نہ مانا اس نے اپنے بہن بھائیوں کے دکھ سکھ کے لمحات میں ہر طرح سے ساتھ دیا. ، خودداری جیسی نعمت کے ساتھ جینے کی شان اللہ پاک ہر کسی کو دے مگر بڑی آپا کے خلوص کو سانیہ نے ایک نہیں دو نہیں کءی بار دھتکارا اور پھر بڑی آپا بھی حادثاتی موت کا شکار ہو کے اس مسایل بھری دنیا کو چھوڑ گییں اور افسوس کرنے والوں اور وین ڈالنے والوں میں سا نیہ جی کی آواز سب سے زیادہ بلند تھی. مگر اپنوں اور خاص طور پر سانیہ کے برے رویوں کی ڈسی ہوی بڑی آپا کو اب اس بین، رونے دھونے اور ملال کی قطعاً ضرورت نہ رہی تھی تو کوشش کیجیے کہ زندہ لوگوں سے میل ملاپ رکھیے اور انھیں طعنوں، تشنوں کی سولی سے بچاییں اور اپنے پیاروں کے خلوص پہ شک نہ کریں.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
punnam.naureenl@icloud.com
Leave a Reply