مجھے کچھ آرزوئیں
آزمانا چاہتی ہیں
نٸی کچھ گردشِ دنیا دکھانا چاہتی ہیں
کبھی پوری نہیں ہوتی ہر اک خواہش بشر کی
کہیں آ کر امنگیں اک ٹھکانا چاہتی ہیں
ذرا سن لیں ! یہ دنیا تو ہے مانندِ سرائے
غموں کو آپ کیوں اتنا منانا چاہتی ہیں
ہر اک انساں کرے اتنی پرستش آپ کی ہی
تو گویا ساتھ اپنے اک زمانہ چاہتی ہیں
کہاں اور کیسے روکیں لوگوں کو اس دور میں ہم
کہ اندھی خواہشیں فتنے اٹھانا چاہتی ہیں
زماں کی شورشیں بھی ڈھونڈتی ہیں اک ترنم
کہ نغمہ زندگی کا گنگنانا چاہتی ہیں
ہوائیں آج ہیں آمادہ شوریدہ سری پر
وہ اپنی طاقتیں سب کو دکھانا چاہتی ہیں
کبھی بھی آپ کو ہم نے نہیں دی کوئی زحمت
یوں ہی خائف رہیں کوئی بہانہ چاہتی ہیں
تصوف کی طرف جانے لگیں ہیں سوچ ساری
تو کیا اللہ سے اب لو لگانا چاہتی ہیں
دئیے کتنے جلائے خواہشوں کے ہیں ثمر پر
مگر کیا آپ اب اک اور جلانا چاہتی ہیں
ثمرین ندیم ثمر
دوحہ قطر
12۔7۔25
Leave a Reply