تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
اللہ جانے اس کی کمر میں باہنی طرف ہلکا سا خم کیوں تھا؟
کیا اسے کوی ریڑھ کی ہڈی کا پیدایشی مسئلہ تھا؟
اسے بچپن میں کوی چوٹ لگی تھی، جس کا بروقت علاج نہ ہونے کے باعث ہڈی تھوڑی آڑی ترچھی ہو کے باہر کی جانب نکل آءی تھی جس کی بنا پہ وہ چلتے ہوے باہر کی طرف یوں جھکای دیتا تھا کہ ابھی گرا سو گرا، مگر یہ صرف دیکھنے والی آنکھوں کا وہم تھا وہ ستر کا ہو چکا تھا، دکھنے میں انتہائی دبلا پتلا، سر کے بال آدھے سے زیادہ سفید ہو چکے تھے مگر بیچ میں اکا دکا بال کالے سیاہ بھی تھے جو بابے حسنے کو اپنی عمر رفتہ کی یاد دلانے کے لیے کافی تھے یہ ماضی اور ماضی کی خوبصورت اور حسین یادیں اگر نہ ہوں تو زندگی ایک دم ہی روکھی پھیکی اور بد رنگ ہو جاتی ہے ہاں چند لوگوں کا ماضی اتنا خوفناک اور بھیانک ہوتا ہے کہ انھیں ماضی کا سوچ کر ہی کپکپی طاری ہو جاتی ہے اور وہ برملا کہتے نظر آتے ہیں کہ ،
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
خیر بابا حسنا، پوری بہاریہ کالونی کا بابا تھا، ستر سال کا ہونے کے باوجود اسے عہد حاضر کے باقی عمر رسیدہ لوگوں کی طرح نہ ہی شوگر تھی نہ ہی بلڈ پریشر کی زیادتی کا سامنا، پانچ فٹ تین انچ کا بابا حسنا اپنے گہرے سلونے رنگ، گول چہرے، قدرے بیٹھی ہوی ناک اور چنی چنی آنکھوں کے ساتھ بھی بلا کا دوربین اور نظر شناس تھا، وہ بہاریہ کالونی کے تقریباً بیس، پچیس گھروں کا مالی تھا، چاہتا تو عام گھومنے پھرنے والے ملازمین کی طرح صدقہ خیرات کے نام پہ کہیں سے چاے، کہیں سے روٹی اور کہیں سے سالن مانگ کے اپنا گزارا خوب کر سکتا تھا مگر بابے حسنے میں غیرت اور حمیت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بڑا رواں تھا جسے اس نے اپنے دماغ میں بڑی فرصت سے ٹھاٹھیں مارنے کے لیے دماغ کی اندرونی Amygdala میں پوری آزادی سے کھلا چھوڑ رکھا تھا، اور اپنی اس غیرت کو دنیا کے سامنے ہلکی سی مسکراہٹ اور نہ کے ساتھ پیش کر دیتا تھا……. وہ جس گھر بھی مالی کے پھیرے کے طور پہ جاتا وہاں کی سڑی ہوی، بد اخلاق بیگمات بھی بابے حسنے کو چاہ پانی کی دعوت ضرور دیتی تھیں اور بابا حسنا دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ نظریں جھکا کے ہولے کہہ دیتا نہ جی……..
غربت، عیب نہیں ہوتی، عیب ہوتا انسان کے اندر بستا ہوا تھکاہارا، مجروح، لاغر ضمیر جو نہ صرف انسان کو اس کی اپنی نظروں سے گرا دیتا ہے بلکہ اسے دنیا بھر کے لوگوں کی نظروں میں کوتاہ قد بنا کر پیش کر دیتا ہے. لیکن بابے حسنے کا ظاہری حلیہ بھلے غریبانہ تھا مگر وہ دل کا بادشاہ تھا اور اس کا ماننا تھا کہ بندہ بشر اتنی محنت صرف دو وقت کی روٹی کے لیے کرتا ہے اگر وہ دو وقت کی روٹی ہی عزت سے نہ کھا پاے تو کیا فایدہ اتنی محنت کا.
Leave a Reply