rki.news
تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
ساتویں اولاد اور پانچویں بیٹی کیا خوشی کیا غمی، سو سطوت آرا کو ایک بن بلائے مہمان کی طرح ان چاہے دل سے میاں بیوی اور چھ بہن بھائیوں نے سویکار تو کر لیا مگر وہ اتنے کھانے والوں اور ایک محدود آمدنی والے گھر میں والدین سمیت سب بہن بھائیوں کی آنکھوں میں ایک خلش نا تمام کی طرح شدت سے کھٹکتی رہی، باپ ٹی بی کا مریض، نو جانوں کے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے محنت مزدوری کرتے کرتے خون اگلتا ہوا بڑے سکون سے جان کی بازی ہار گیا، ماں کءی گھروں کی صفائی کر کے جو بچا کھچا کھانا لاتی وہی سب زہر مار کرتے اور نیے دن کی آس میں نیند اوڑھ کر سوجاتے ساری بہنوں کی اپنے جیسے غریب غربا سے شادی کے بعد جب سطوت آرا کی شادی کی رات آی تو سطوت آرا نے سکھ کی سانس لی کہ بالآخر اسے وہ گھر نصیب ہونے جا رہا ہے جس کے خواب وہ اپنے پیدا ہونے سے ہی دیکھتی چلی آ رہی تھی، رخصت ہو کے جب اس کے شوہر نے اس کا گھونگھٹ اٹھایا تو زندگی ایک انتہائی مکروہ پہناوے میں اس کے سامنے آ کھڑی ہوی، نکاح کے نام پہ سطوت آرا کو ایک جنس کی مانند بیچا جا چکا تھا اس نے ایک ہی پل میں اپنے مستقبل کے گھر کی ساری اقساط ایک چھری کے وار سے ادا کیں اسے قتل عمد کی سزا کے طور پہ عمر قید سنا دی گءی، بیس سالہ سطوت آرا کا گھر اب جیل کی اندھیری کوٹھری ہے آخری سانسوں تک.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendrpunnam@gmail.com
Leave a Reply