Today ePaper
Rahbar e Kisan International

افسانہ:من در عشق باشما ہاستم

Articles , / Thursday, May 22nd, 2025

rki.news

از قلم مریم
“آنا فی نفسی اکثر منی”
وہ مجھ میں مجھ سے زیادہ ہے

وہ بھاگ رہی تھی وہ بھاگتے بھاگتے اس کا پاؤں لکڑی کے اوپری حصے جو اوپر کی جانب ابھرا ہوا تھا اس سے ٹکرایا اور اس کے پاؤں سے خون کا ایک تیز دھارا نکلا اور اس سے یوں محسوس ہوا جیسے اس کا پاؤں کا اوپری حصہ کٹ کر دو حصوں میں بٹ چکا ہے،اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو دور دور تک سوائے پرندوں اور اکا دوکا جانوروں کے اس کو کچھ دیکھائی نہ دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاہ چادر میں لپٹی یہ لڑکی خوبصورت نقوش کی مالک ہیزل رنگ کی آنکھیں سفیدی مائل صورت اور جسم بے شمار حسن سے بھرپور بھورے بالوں والی یہ لڑکی حسن کی دیوی لیکن خوبصورتی نصیب پہ ختم ہو جاتی ہے قسمت ہر کسی پہ کہاں مہربان ہوتی ہے اور حسن پرست تو اکثر ہی محبت میں کسی ہارے ہوئے جواری کی سی کیفیت میں رہتے ہیں۔
اور ماہ بھی انہی میں سے تھی جن کی دسترس میں صرف وہ انسان نہیں تھا جسے ماہ لایل نے چاہا تھا۔
………………………………….محبت جب ہو جائے تو پھر انسان ہوش گنوا بیٹھتا ہے اور ماہ لیل ان لوگوں میں سے تھی جس نے محبت میں خود کو گنوا دیا اور جدائی کا روگ اس کو جیتے جی موت کے تمام باب دیکھا گیا۔
ماہ لیل ایک پر کشش لڑکی اور خوبصورت ہونے کے ساتھ بے حد خوب سیرت بھی ہے۔
الله کے ساتھ اس کا ہمیشہ سے ایک تعلق رہا ہے وہ یہ کہہ سکتی ہے کہ ہاں الله کا ساتھ اس کو مستقل نصیب رہا ہے۔
یونہی بے سبب سڑک پہ چلتے چلتے یکدم اس کی آنکھ ایک نوجوان پہ پڑی جو سر جھکائے نا جانے کونسی سی کتاب پڑھنے میں مگن تھا اور ماہ کی کتابوں سے دلچسپی کی وجہ ہی تھی جس نے اس کے قدموں کو نا جانے کیسے آگے بڑھایا ورنہ اس نے آج تک کسی مرد کی جانب قدم نہیں اٹھائے چلتے چلتے وہ پاس پہنچی تو وہ (تفسیر ابن کثیر)،
قرآن پاک کا ترجمہ پڑھنے میں مشغول تھا اور ماہ لیل اس کی آواز سن کر سکتہ کی سی کیفیت میں قدم قدم واپس چلتی گئی اس کی آواز اس قدر سحر انگیز تھی کہ کوئی بھی انسان متاثر ہوئے بغیر نہ رہ پائے۔
ملک تاثیر یوسف اپنی رعب دار اور پرکشش جاذب شخصیت کے ساتھ بہت سی خوبیوں کا مالک تھا خوش الحان خوش گفتاری تو اس کی خون میں شامل تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاثیر اور ماہ کا ٹکراؤ کبھی نہیں ہوا لیکن وہ دونوں ایک دوسرے کو اکثر و بیشتر سڑک پہ دیکھ چکے تھے اور پتہ نہیں کیسے ان دو دلوں پہ محبت اتر چکی تھی کیسے وہ ایک دوسرے سے محبت کر بیٹھے اور کیسے ان کے دلوں میں محبت کسی الہام کی مانند اتری۔
ماہ لایل اپنے دادا کے ساتھ تاثیر کی حویلی سے قدرے فاصلے پر رہتی تھی یوں تو ان کے گھر والوں کے آپس میں کسی قسم کے کوئی مراسم نہ تھے۔
بس اکثر و بیشتر چہل قدمی کرتے ہوئے دونوں کی نظر ایک دوسرے پہ پڑ جاتی کاش کے یہ دل یہ دو اجنبی یہ دو زی روح کبھی ایک دوسرے سے نہ ملتے اور نہ محبتوں کے روگ ان کے حصے میں لکھے جاتے۔
کچھ ماہ بعد
آج کی صبح ایک عجیب قسم کی خوشی کا منظر پیش کر رہی تھی اور ماہ لیل سبزے پہ چلتے اپنی چادر کو سر پہ لیتے ہوئے فضا میں سانس لیتے یہ محسوس کرنے لگی کہ آج سب کچھ اس کی دسترس میں آنے والا ہے اس نے گہری سانس لے کر تازگی محسوس کی پھر گیراج سے ہوتے ہوئے مین ڈور سے باہر نکل گئی اور سڑک پہ پھیلے سکوت کو محسوس کرنے لگی کہ یکدم اسکے دل کی دھڑکن تیز ہوئی اس نے محسوس کیا جیسے تاثیر کہیں سے آنے والا ہے حالانکہ اس سے کبھی اس نے بات نہیں کی نہ وہ اس کے قدموں کی آہٹ جانتی ہے لیکن جب دل مل جائیں تو آہٹ اندر سنائی دیتی ہے جیسے ہی اس نے آہستہ سے آنکھیں کھولیں سامنے تاثیر کو کھڑا پایا۔
السلام علیکم محترمہ اگر آپ کو برا نہ لگے تو کیا میں آپ سے بات کر سکتا ہوں؟
اور ماہ لایل کے لب تو جیسے سی دئیے گئے تھے اس نے اثبات میں سر ہلایا اور ملک تاثیر یوسف کے لبوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ دوڑی اور پھر وہ قدم با قدم دونوں چلنے لگے!!
ماہ لایل ساہ چادر اوڑھے ہوئے تھی جبکہ ملک تاثیر یوسف بھی ساہ چادر کو اپنے کندھوں کے گرد لپیٹے ہوئے تھا۔
سنیں محترمہ
جی!!
آپ کا نام کیا ہے؟
میرا نام ماہ لایل ہے!
What a nice name!
شکریہ!
آپ کا کیا نام ہے؟
مس ماہ لیل میرا نام ملک تاثیر یوسف ہے اور میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔
جی آپ کہیے
دیکھیں ماہ میں آپ کو سیدھی اور کھری بات کرنا چاہتا ہوں اور کہیں نہ کہیں آپ کے دل میں بھی کچھ ضرور اترا ہو گا آپ نے بھی یقینا یہ محسوس کیا ہو گا جو میرا دل محسوس کر رہا ہے.
جی تاثیر ایسا ہی ہے میں نے جب سے آپ کو دیکھا ہے ایک عجیب سی کیفیت میں مبتلا ہوں میں خود اس کیفیت سے ناواقف ہوں مجھے ہر لمحہ عجیب سا محسوس ہوتا ہے مجھے محبت سے ڈر لگتا تھا اور شاید مجھے آپ سے محبت ہو چکی ہے۔
تاثیر نے ایک گہرا سانس فضا میں لیا اور اور اس سے گویا ہوا ماہ لیل میں بھی آپ سے محبت کرتا ہوں میں آج آپ سے اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ میں آپ سے محبت کرتا ہوں میں تمام تر خلوص محبت کے ساتھ آپ کے سامنے سے تسلیم کرنا چاہتا ہوں کہ تاثیر ماہ سے محبت کرتا ہے اور یہ جانے بغیر کے یہ محبت کب اور کیسے دل پہ اتری بس اب محبت ہے تو نبھانی ہے اب سے اج سے آپ صرف میری ہیں ماہ لیل میرا خلوص میرا دل میری تمام تر محبتوں کی وارت ماہ لیل ہے،
ماہ لیل نے سر اٹھا کر ملک تاثیر کی آنکھوں میں جھانکا اور صرف پانچ الفاظ ادا کیے۔
“من در عشق باشما ہاستم”
(مجھے آپ سے محبت ہو گئی ہے)۔
تو ماہ نے ملک کی آنکھوں میں اپنے لیے جو محبت دیکھی وہ بھی اسی لمحے اسی وقت اپنی تمام تر محبتیں تاثیر کے نام کر بیٹھی جس کے بارے میں وہ صرف اتنا جانتی ہے کہ وہ خوش الحان ہے اور تاثیر سے گفتگو کرنے کے بعد اس پہ یہ بات بھی عیاں ہو گئی کہ خوش الحان کے ساتھ ساتھ وہ خوش گفتار بھی ہے۔
تاثیر نے ماہ کی بات ختم ہونے کا انتظار کیا اور پھر اپنی بات کا سلسلہ شروع کیا میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں میں جلد میں آپ کے گھر رشتہ بھیجنا چاہتا ہوں اور آپ مجھے اپنے گھر والوں کے بارے میں بتائیے
ماہ لیل نے اثبات میں سر ہلایا۔

اور قدم قدم چلتی گھر کے اندر داخل ہوئی تو دل اور روح دونوں خوشی اور غمی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ خاموش تھے اور وہ ایسا محسوس کر رہی تھی کہ آج اس سے زندگی کو جی لیا ہے اب وہ زندگی جتنے لگی ہے ماہ لیل خود سے باتیں کرتے کرتے خود سے سوال کرتی اپنے کمرے میں قدم رکھتی فرش پہ ڈھے سی گئی کیا مجھے اس انسان سے محبت ہو گئی ہے جس کے بارے میں میں آج سے پہلے کچھ نہیں جانتی؟یہ کیسا جذبہ ہے یہ مجھے کیا ہو رہا ہے میرا دل کیوں اس کی جانب مائل ہوا جا رہا ہے کیسے میرے دل میں اسکی اتنی محبت اتر گئی کب کہاں اور کیسے کا کوئی جواب نہ پا سکی اور روتے روتے سو گئی۔
اگلا سارا دن گزر جانے کے بعد جب آگلی صبح کا سورج پوری آب وتاب کے ساتھ طلوع نہیں ہوا تھا کہ ماہ لیل ساہ چادر اوڑھے گھر سے باہر قدم رکھتی آہستہ آہستہ قدم اٹھا رہی تھی کہ سامنے ملک تاثیر کو کھڑا پایا۔
کیسی ہیں اپ ؟
میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں
ہم بھی ٹھیک ہیں
اور ساتھ ایک ہلکی سی مسکراہٹ ملک کے چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ دوڑی
میں نے اپنے گھر والوں سے بات کر لی ہے میرے گھر والے جلد آپ کے گھر آئیں گیں۔
آپ کو کوئ اعتراض تو نہیں؟
ماہ لیل چلتے چلتے رکی مڑی اور اپنا منہ تاثیر کے چہرے کی طرف کر کے کہا کہ مجھے کیوں اعتراض ہو گا ملک میں بھی یہی چاہتی ہوں کہ ہماری شادی جلد ہو جائے
ویسے بات سنیں
جی فرمائیے فرمائیے؟
میں آپ کو کیوں اچھی لگی؟
میں خود نہیں جانتا پتہ نہیں کیا لیکن کوئی کشش ہے آپ میں آپ یہ ہر وقت چادر اوڑھ کر رکھنا میں نے آپ کو کبھی چادر کے بغیر نہیں دیکھا ہمیشہ آپ یہ چادر اوڑھے رکھتی ہیں مجھے آپ کی حیا سے بھی پیار ہے اور الله نے مجھے حیا دار عورت عطا کی ہے۔
ماہ نے تاثیر کی بات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ الله نے مجھے ایک حیادار مرد عطا کیا ہے جو کہ الله سے محبت رکھتا ہے۔
آپ مجھے کبھی چھوڑ کر تو نہی جائیں گے نہ؟
نہیں ماہ میں کیوں جاؤں گا موت کے سوا ہمیں کوئی چیز جدا نہیں کرے گی۔
ماہ نے گھور کر تاثیر کی جانب دیکھنے لگی۔

تُو مَیں ہُوا، مَیں تُو ہوا، تُو تَن ہُوا، مَیں جاںْ ہوا
اب کون ہے؟ جو یہ کَہے، تُو اَور ہے مَیں اَور ہُوں

اب کیا ہوا ماہ ،موت اور جدائی کی باتیں مت کیا کریں ملک میرے پاس دو لوگوں کے سوا زندگی میں ہے ہی کون؟ایک دادا ایک آپ اور آپ بھی ایسی باتیں کرتے ہیں آپ جانتے ہیں میں نے کتنے لوگوں کا جنازہ اٹھتے دیکھا ہے اب مزید سکت نہیں ہے مجھ میں اب مزید کچھ برداشت نہیں کر سکوں گی اور ماہ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں۔
تاثیر کے جیسے کسی نے دل کو مٹھی میں کر لیا ہو ماہ پلیز آپ چپ کریں میں آپ کی آنکھوں میں آنسو نہیں لانا چاہتا تھا میں کہیں نہیں جا رہا میں کیوں جاؤں گا آپ چپ ہو جائیں آئندہ ایسی بات نہیں کروں گا میں نے آپ کا ہاتھ چھوڑنے کے لیے نہیں تھاما میں نے ہمیشہ آپ کے ساتھ رہنے کے لئے تھاما ہے۔
میں آپ کے لیے کچھ لایا ہوں ماہ جو سڑک پہ چلتے ہوئے رک گئی کیا لائے آپ ؟
میں آپ کے لیے سیاہ رنگ کی چادر لایا ہوں آپ کو پسند ہیں نہ ؟۔
جی تاثیر مجھے بہت پسند ہیں میرے پاس ڈھیروں سیاہ چادریں ہیں لیکن آپ کی دی ہوئی میرے لیے ہر چادر سے زیادہ عزیز ہے۔
سڑک پہ چلتے چلتے دونوں نے پیچھے سے آتی گاڑی کی آواز سنی وہ جیسے ہی سڑک کے کنارے کی طرف جانے لگا اس نے ماہ کو کنارے کی جانب کیا اور خود جیسے ہی مڑ کر واپس کنارے کی جانب جانے لگا اور گاڑی تاثیر کے موت کی وادی میں اتارتی گزر گئی اور تاثیر سے کچھ دیر پہلے ماہ سے موت کی بات نہ کرنے کا کہہ کر اپنی نیند سو چکا تھا ماہ لیل سکتہ کی سی کیفیت میں کھڑی اس کے سفید لباس پہ لگے خون کے دھبوں کو دیکھنے لگی جو جا بجا لگ کر تاثیر کے سفید لباس کو سرخ لباس میں بدل چکے تھے۔
تاثیر تاثیر آپ کو کیا ہوا پلیز اٹھیں یوں نہ کریں میرے ساتھ تاثیر آپ بول کیوں نہیں رہے تاثیر اور ماہ لیل نے تاثیر کے ہونٹوں میں جنبش دیکھی تو اپنا کان قریب کیا اور اس نے کچھ آخری الفاظ کہے ماہ میں آپ سے بے حد محبت کرتا ہوں اور آج اگر میں واپس آنکھیں نہ کھول سکا تو مجھے معاف کر دیجیے گا اپنا خیال رکھنا آپ میری پہلی اور آخری محبت ہیں
اور تاثیر اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔

عِشق گھڑے دا مِٹھا پانی
پِی نہ بیٹھیں زہر اے اڑیا
.
کچھ ماہ بعد
ماہ لیل تو جیسے ملک کے جانے کے بعد ٹوٹ کر رہ گئی ہر چیز سے بیگانہ کسی بات کی نہ خبر ناں دنیا کی پرواہ بس اپنے اندر اترتے اس درد کو محسوس کرتی جانے کیسے یہ دو ماہ گزار کر آئی اور خود سے باتیں کرتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ یہ دن میں نے نہیں گزار رہی یہ مجھے گزار رہیں ہیں۔
تقریبآ ہر دن کچھ دنوں کے وقفے کے ساتھ ملک خواب میں آتا اور ہر بار وہ ڈھیروں باتیں کرتا اور ماہ اب تک اس بات پہ یقین نہ کر سکی کہ ملک اس دنیا سے جا چکا ہے۔
وہ ڈائری پہ شعر لکھتے ہوئے ساتھ پڑھنے لگی۔

سر طور ہو سرِ حشر ہو ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں وہ کہیں ملیں وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی

اور نہ جانے کتنے آنسو ٹوٹ کر ماہ لیل کی آنکھوں سے گرے اور وہ منہ پہ ہاتھ رکھتی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور اس کو ایسے لگتا تھا جیسے اندر اتنے زخم ہیں جو خون سے بھرے ہیں اور رس رہے ہیں اور ہر زخم کوئی ادھیڑ رہا ہو اور اندر کی تکلیف سے صرف وہی واقف تھی۔

پھر کوئی آیا دل زار نہیں کوئی نہیں
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا

ملک کی دی ہوئی چادر اوڑھی تو یوں لگا جیسے ملک بالکل آس پاس ہے چادر اوڑھ کر وہ باہر نکلنے کی بجائے فرش پہ بیٹھ کر سوچوں سے عاری صرف چادر کو دیکھنے لگی اور پھر سے آنسو اسکی آنکھوں سے بہنے لگے اور کتنا مشکل ہے جب ایک انسان دنیا سے چلا جائے اور دوسرا پیچھے رہ جائے اور دوسرے نے پہلے کے بغیر جینے کا تصور ہی نہ کیا ہو
ماہ لیل ایک بہادر لڑکی تھی لیکن خواب ٹوٹ جائیں تو خون دل کے زخموں سے بہتا ہے۔ خوابوں کی کرچیاں آنکھوں کو زخمی کر دیتی ہیں اور جب آنکھیں زخمی ہو جاتیں ہیں اور پھر آنکھیں کہاں کوئی منظر دیکھ پاتی ہیں۔
محبت کا دکھ بہت بڑا ہے اتنا بڑا کہ انسان اندر اندر مر رہا ہوتا ہے اور وہ کہہ نہیں پاتا وہ کٹ رہا ہوتا ہے وہ کہہ نہیں پاتا کیونکہ لوگ محبت کو مذاق سمجھتے ہیں لیکن اگر سامنے والا بھی محبت کرنے والا ہو اور دنیا سے چلا جائے تو پھر صبر آتے آتے ہی آتا ہے ۔
اور تاثیر کے جانے سے اس کا ناں صرف دل ٹوٹا تھا بلکہ جسم کی ہر ہڈی ٹوٹ چکی تھی دل کا ٹوٹنا اندر ہی اندر خون رسنے کی مانند ہے اور ہڈیوں کا ٹوٹنا انسان کا اپاہج ہو جانا ہے۔
یکدم شام کے وقت ماہ لیل کا دل گھبرانے لگا تو اٹھ کر باہر کی جانب دوڑی گیراج میں آتے ہی لمبے لمبے سانس لینے لگی پھر بھی بے چینی کم نہ ہوئی تو گیٹ کھولتے باہر کی جانب بھاگی بھاگتے ہوئے اس کو کتنے کانٹے پاؤں میں چبھے اس کو یاد نہیں اور یونہی بھاگتے ہوئے وہ ایک حادثے کا شکار ہوئی اور تاثیر جہاں دو ماہ پہلے گیا تھا آج ٹھیک اسی جگہ پہ دو ماہ بعد ماہ لیل بھی جا پہنچی آج وہ اپنے تمام درد غموں اور زخموں کے ساتھ اپنے خالق حقیقی سے جا ملی اور آج ماہ لیل سکون کی نیند سو گئی آج دو ماہ بعد ابدی نیند سو گئی۔
آج محبت کی یہ کہانی یہاں سے شروع ہوئی۔
یہ داستان جو تاثیر کے جانے سے ادھوری رہ گئی تھی آج ماہ کے جانے سے مکمل ہو گئی۔

بيا جانم جداي سخت است
(میرے پیارے جدائی بہت سخت ہے)۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International