rki.news
تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
مکان کی دیواریں سیلن زدہ ہو چکی تھیں، جا بجا ہرے رنگ کی مخملیں کای، سورج کی روشنی میں ایک عجب ہی چمک کے ساتھ ایک انتہائی دلکش ہرے رنگ کے ساتھ گھر کے فرنٹ پہ جا بجا ہویدا تھی وہ تھی تو جمی ہوی کای ہی مگر قدرت کی کاریگری کہ وہ کسی ماہر مصور کا شاہکار دکھتی تھی، گھر کے کمروں میں ہوا پینٹ جگہ جگہ سے اکھڑ چکا تھا، سیلن زدہ چپس والے فرش گارے میں مدفون کہیں کہیں سے اپنی چھب دکھاتے تھے، لکڑی کے دروازوں پہ دیمک پوری طرح سے حاوی ہو چکی تھی، دیار کی لکڑی کے دروازے چوکھاٹوں کے کمزور سہارے کھڑے تو دکھای دیتے تھے مگر یوں محسوس ہوتا تھا کہ ابھی، پلک جھپکتے ہی زمین پہ آ گریں گے. ہاے یہ پیرانہ سالی بھی نہ ایک عجب طرح کا روگ، ایک بے سبب سا سوگ اور بڑا ہی جان لیوا عذاب ہوتی ہے جس سے نہ پیچھا چھوٹتا ہے اور نہ ہی جان، لیکن کیا کریں یہ پیرانہ سالی، یہ بزرگی، انسانوں، جانوروں اور درختوں کی طرح گھر گھروندوں اور استعمال کی چیزوں پہ بھی وارد ہو ہی جاتی ہے، اور سچی میں یہ پیرانہ سالی، یہ بزرگی، یہ پرانا ہو جانا بھی خواہ مخواہ کا احساس ندامت ہی ہوتا ہے، اگر بزرگی آپ کے اپنے وجود پہ طاری ہو جاے تو آپ ایک خواہ مخواہ کی ندامت کا شکار ہو جاتے ہیں یا ایک عجب طرح کی بے بسی اور کھسیانا پن آپ کو خواہ مخواہ ہی مسخرہ سا بنا کے دنیا کے سامنے پیش کر دیتا ہے، گویا یہ بزرگی، یہ بڑھاپا بھی آپ کی ذاتی خطا ہو. خیر بات اس سال خوردہ مکان کی ہو رہی تھی جس میں رہنے والے تو راہی ملک عدم ہو ہی چکے تھے، مکان کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہو چکی تھی، اور اس مکان کی واحد وارث فریحہ مبین جو کہ ایک لمبے عرصے سے ملبورن میں مقیم تھیں اور اپنے بزنس اور شادی شدہ زندگی میں اتنی زیادہ مصروف تھیں کہ نہ ہی اپنی والدہ اور نہ ہی والد کی وفات پہ آ سکی تھیں، رشتہ داروں اور محلہ داروں نے مل جل کے ان کی تدفین کر دی تھی اور اکلوتی بیٹی کو پیشگی اطلاع بھی دے دی تھی کہ اب پیچھے دعاؤں والے ہاتھ نہیں رہے، فریحہ والدین کے گزرنے کے بھی تقریباً پانچ سال بعد وطن وآپس آنے میں کامیاب ہو پای تھی.
ہاے یہ پردیس بھی ناں، پردیسیوں کو ایسے جپھی مار لیتا ہے ناں کہ اس جان لیوا جپھی سے اپنے آپ کو آزاد کروانا بھی کبھی کبھی سوہان روح ہو جاتا ہے. خیر فریحہ جو کہ گریجویشن کرنے کے فوراً بعد ہی بیاہ کے اپنے انجینئر میاں کے ساتھ ملبورن روانہ ہو گءی تھی اس وقت بیس سالہ فریحہ جو کہ اپنے اماں، بابا کی لاڈلی بیٹی تھی، اسے اس بات کی قطعاً خبر نہ تھی کہ وہ اپنے گھر، اپنے وطن اور اپنے والدین سے ایک مستقل جدای کے عذاب سے گزرنے والی ہے، وہ گھر جہاں لڈو، کیرم، چھپن چھپای، پکڑن پکڑای، پٹھو گول گرم، ریڈی گو، شٹاپو کھیلتے کھیلتے بچپن سے لڑکپن اور لڑکپن سےجوانی کی سیڑھیاں چڑھتی ہوی دولہن بن کے پیا دیس ہنستی کھیلتی والدین کی پناہوں سے شوہر کی پناہوں میں چلی گءی تھی، وہ گھر جہاں ماں کے ساتھ بیٹھ کے پڑھای کے رٹے لگاے جاتے تھے، جہاں بابا نے اسے سارے پہاڑے منہ زبانی یاد کرواے تھے، تختی پہ نوکدار قلم کے ساتھ خوش خطی کی مشقیں کروای تھیں، جہاں بابا نے اسے نماز پڑھنا، قرآن پاک بمع ترجمہ و تفسیر سکھایا تھا، اماں اس کی تختیوں کو چکنی گاچنی سے لیپ کر دھوپ میں اس سکھا کر ہمیشہ اس کے سکول کے آنے سے پہلے تیار رکھتی تھیں، اماں اس کی سکول سے وآپسی پہ تازہ پھلکے تیار کرتیں اور بڑی چاہ سے اسے کھانا کھلاتیں، ہاے یہ پیار کرنے والے ہماری عادتیں کتنی خراب کر دیتے ہیں ناں کہ پھر ساری عمر ہم اسی محبت کی چھپر چھایا کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے خود ہی کھو جاتے ہیں، فریحہ نے ان ملیا میٹ درو دیوار پہ ایک آخری الوداعی نظر ڈالی جسے بنانے میں اس کے باپ کا پورا جیون اور ماں کے سارے گہنے کام آ گیے تھے جہاں فریحہ نے پہلا قدم
اٹھایا اور پہلا لفظ بولا تھا جہاں اس نے پہلا حرف لکھا تھا،جہاں اس کے والدین نے بڑی چاہ سے اسے اچھی تعلیم و تربیت دے کر پروان چڑھایا تھا اور ایک اچھا انسان بنا کے ظالم اور خود غرض دنیا کے حوالے کر دیا تھا، وہ درو دیوار جہاں اپنے مصیبت زدہ، بیماری والے ایام میں اس کے والدین نے اپنی اکلوتی اولاد کا بڑی بے تابی سے ہر کوے کی کایں کایں پہ انتظار کیا تھا. اور فریحہ کو نہ والدین کی خدمت کرنا نصیب ہوا نہ مرے ماں باپ کا منہ دیکھنا نصیب ہوا، وہ ظالم دنیا جس نے بیمار والدین کی عیادت کے لیے اکلوتی بیٹی کو ان کی خدمت کی اجازت نہ دی تھی. ہاں اسی اکلوتی بیٹی کو والدین کی وراثت کے حصول کے لیے پیچیدہ قانونی مراحل سے گزرنے کے لیے تن تنہا بھیج دیا تھا، فریحہ نے ڈبڈبای ہوی آنکھوں سے اپنے آبای گھر کو آخری دفعہ دیکھا اور گھر کی دہلیز پار کر گءی.
آبای مکان
نہ منڈیروں پہ کوے بولیں گے
نہ ہی بابا کی صدا آے گی
نہ ہی اب ماں مجھے بلاے گی
وہ میرا گھر جسے بنانے میں
خرچ میرے باپ کی جوانی ہوی
گہنے میری ماں کے بک گیے سارے
وہ مکاں جس میں محبت کے سوا
سمجھی جاتی تھی نہ کوئی بھی زباں
بیچنے آی ہوں وہی میں مکاں
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendoctorpunnam@gmail.com
Leave a Reply