تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
بستہ سکول جانے والے طلباء و طالبات کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے، بستے میں کتابیں، کاپیاں، جومیٹری باکس، پنسلیں، شاپنرز، ربڑ کے علاوہ لنچ باکس بھی ہوتا ہے کچھ بچے اپنی پاکٹ منی بھی بستے ہی میں رکھتے ہیں، آج کل تو دنیا میں پای جانے والی باقی تمام اشیاے ضرورت کی طرح بستے بھی بڑے سٹالیش، ماڈرن اور مہنگے ہو گیے ہیں. اب تو کپڑوں، جوتوں اور دیگر اشیاے ضرورت کے ساتھ ساتھ سکول بیگز بھی برانڈڈ ہو چکے ہیں. کءی کءی ہزاروں کی مالیت کے بیگ لے کے بچے سکول جاتے ہیں کچھ بیگ کندھوں پہ لٹکاے جاتے ہیں کچھ ٹرالیوں پہ گھسیٹے جا رہے ہوتے ہیں کچھ خالص چمڑے کے تو کچھ ریکسین یا کپڑے کے بھی ہوتے ہیں یعنی قصہ مختصر کہ ہر طالب علم یا طالبہ اسکول و کالج کا بستہ بھی اس کی حیثیت کا پتا دے رہا ہوتا ہے.
تو آج ہم جس بستے کی بات کرنے جا رہے ہیں وہ بستہ گاوں کے ایک کسان کے بیٹے نصراللہ وہاب کا بستہ تھا. جی ہاں نصراللہ وہاب کا بستہ. نصراللہ وہاب کو اپنا بستہ اپنی زندگی میں موجود تمام چیزوں سے بڑھ کو پیارا تھا. وہ بستہ اسے کسی ولی کی دعا جیسا لگتا تھا، وہ بستہ اسے رستے کا دیا لگتا اسے لگتا کہ گاوں کی اس گھٹن، بوسیدہ اور جہالت کے دور میں وہ بستہ تن تنہا اس کا راہنما تھا اس کے لیے مشعل راہ تھا. فلالین کا چار خانوں والا ہرے اور کالے رنگ کا ایک گز پہ مشتمل کپڑا جسے نصراللہ وہاب چار تہیں لگا کر درمیان میں سب سے نیچے سلیٹ رکھتا، اوپر ریاضی، اردواور اسلامیات کی کتاب رکھتا اور اس کے اوپر کچی پنسل، ربڑ، شاپنر،قلم اور سلیٹ رکھ کر اپنے بستے کو گٹھری کے سٹایل میں گرہ لگا کر گاچنی سے لپی ہوی خشک تختی کو بندھے یوے بستے کے نیچے رکھ کر سکول روانہ ہو جاتا، یہ دیہاتی زندگی فطرت کے اتنے نزدیک ہوتی ہے کہ نری موج ہوتی ہے، نسیم سحر کے جھونکے اور خوش الحان موذن کی آواز بستر سے چھلانگ مار کر اٹھنے کے لیے کافی ہوتی ہے، نماز، سپارہ سے فارغ ہوتے ہی ماں کے گرما گرم دیسی گھی میں تر بتر پراٹھے، اچار اور چاٹی کی لسی کے مزے کا تو جواب ہی نہیں پھر سکول کی طرف بستہ بغل میں داب کر اور روٹی کا ٹفن ایک ہاتھ میں اور تختی دوسرے ہاتھ میں داب کر ہرے بھرےکھیتوں کو پھلانگتے ہوے سکول جانے میں جو مزہ تھا وہ کوئی وہاب اللہ سے پوچھتا. وہاب اللہ اس بستے کے ساتھ دسویں جماعت میں پہنچ گیا تھا وہ ہر جماعت میں اول پوزیشن لیتا رہا، وہ پانچ سال کے چھوٹے سے لڑکے سے سولہ سالہ نوجوان میں منتقل ہو چکا تھا چھ فٹ دو انچ قد کے ساتھ اس کا کسرتی بدن اسے کسی تربیت یافتہ کھلاڑی جیسا ہی دکھاتا تھا، اب تو بچوں کے بستے دس دس کلو کے اور بچے انھیں اپنے کندھوں پہ اٹھا کے نہ صرف ذہنی اذیت کا شکار ہوتے ہیں بلکہ جسمانی مسائل کا بھی سامنا کرتے ہیں. ممی ڈیڈی گروپ نے پورے نظام کو ہی اپنے ہاتھوں میں لے کر ہر شے کو ہی ٹیڑھا میڑھا کر کے چھوڑ دیا.یعنی
نہ ادھر کے رہے، نہ ادھر کے رہے
نہ خدا ہی ملا، نہ وصال صنم
استاد مہربان اور قابل تھے بچوں کو جی جان سے محنت کرواتے تھے، اور بچے والدین اور اساتذہ کی اطاعت میں اتاولے ہوے پھرتے تھے.
خیر غور طلب یہ ہے کہ ایک گز معمولی فلالین کا کپڑا نصراللہ وہاب کے سکول کے پورے دس سال گزار گیا اور جب اس گھسے پھٹے بستہ نما فلالین کے ٹکرے سے نصراللہ وہاب کی جدائی کا وقت قریب آیا تو نصر اللہ وہاب کا بس نہ چلتا تھا کہ اس ایک گز کے گھسے ہوے فلالین کے کپڑے کو کسی تعویذ کی طرح اپنے گلے میں لٹکا لے، اور اس نے اس گھسے پھٹے کپڑے کو اپنے سوٹ کیس کی سب سے نچلی تہہ میں رکھ دیا، اور جب وہ یونیورسٹی سے انجینیرنگ کی ڈگری لے کر لوٹا تو سب سے پہلے اس نے اپنے صندوق میں سے اس بستے کے ایک گز کے کپڑے کو بوسہ دیا اور پھر اس فلالین کے گھسے ہوے ہرے اور کالے چیک والے کپڑے کو فریم کروا کے اپنے ڈرائینگ روم میں آویزاں کر وا دیا.
ڈاکٹر پونم گوندل لاہور
naureendrpunnam@gmail.com
Leave a Reply