Today ePaper
Rahbar e Kisan International

افسانہ. عنوان. بوٹی

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Monday, December 15th, 2025

rki.news

تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
صالحہ نے اپنی کالی چادر میں اپنا آدھے سے زیادہ منہ چھپا رکھا تھا، اس کے ملگجے کپڑے، پھٹے ہوے ریکسین کے بوٹ، دبلا پتلا لاغر وجود اس بات کی چیخ چیخ کر گواہی دے رہا تھا کہ غربت صدیوں سے اس عورت کا سایا بن کے اس کے ساتھ ساتھ کسی گہرے ہمرقاب کی مانند اس کی سکھی رہی ہے، قصاب کی دوکان پہ اتنا رش تھا کہ یوں محسوس ہوتا تھا شہر کا شہر ہی ٹھٹھرتے دسمبر کی اس یخ دوپہر میں گوشت کی خریداری کے لیے قصاب کی دوکان پہ ایک جتھے کی شکل میں نمودار ہو گیا ہے، صالحہ کے ہاتھ میں چند مڑے تڑے نوٹ تھے، اس غضب کی سردی میں بھی اپنی کسمپرسی کو محسوس کر کے اس کی ہتھیلیاں پسینے سے گیلی ہو گییں، اس کی خودداری پہ کءی تازیانے، تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد کسی چابک کی طرح پڑتے اور نہ چاہتے ہوے بھی صالحہ کو اپنی. کسمپرسی اور محرومیاں جی بھر کے رلاتیں اور اس کی راتوں کی نیندیں اڑاتیں، ویسے تو غربت بذات خود ایک بہت بڑا عفریت ہے مگر اس عفریت میں اگر خودی کا تڑکہ بھی لگا دیا جاے تو انسان کی حالت کم و بیش ویسی ہی ہو جاتی ہے جیسی صالحہ کی تھی، وہ اپنی حق حلال کی کمای میں سے چند روپے لے کر اپنے گھر والوں کے لیے ایک وقت کی باعزت روٹی کا بندوبست کرنے کے لیے دنیا کے بازار کی ایک قطار میں بے بسی کی تصویر بن کر اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی. ایک لمبے انتظار کے بعد جب صالحہ کی ٹانگیں بھی تھکاوٹ سے شل ہو چکی تھیں، قصای جو بڑی بڑی آسامیوں کو نبٹا کے موٹی رقم سمیٹ کے کافی حد تک مطمئن نظر آتا تھا ، نے کافی ترچھی اور ٹٹولتی ہوی نظروں سے صالحہ کو دیکھا، قصاب کا منہ بڑا، مونچھیں صحت مند نوکیلی اور دل کینے سے بھرا ہوا تھا، اتنا گوشت بیچنے کے باوجود اس کے سامنے ابھی بھی ہر رنگ اور ہر سایز کی لال، گلابی اور کالی سیاہ بوٹیاں لٹک رہی تھیں، قصاب نے گرجدار آواز میں صالحہ سے پوچھا، کیا چاہیئے، صالحہ نے بغیر بولے ایک بوٹی کی طرف اشارہ کر دیا جو نہ کالی تھی نہ لال، ہلکی گلابی سی تھی،
قصاب برا سا منہ بنا کے منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑایا، صالحہ کو محسوس ہوا اس نے اسے بھکاری سمجھ کے دھتکار دیا ہو، یہ دھتکارا جانا صالحہ کی خودداری پہ تازیانہ تھا، وہ جونہی واپسی کے لیے مڑی قصاب نے اسے آواز لگای اس نے مارے ندامت کے اپنے ہاتھ میں پسینے سے گیلے ہوتے ہوے مڑے تڑے نوٹ قصای کو پکڑا کے گلابی بوٹی کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا، اللہ جانے قصاب اس وقت کس ذہنی کیفیت میں تھا، کیسے وہ رحم کے سنگھاسن پہ براجمان ہوا یا پھر اسے اس تخت رحم پہ بٹھایا گیا کہ اس نے بنا بحث و تکرار کے گلابی بوٹی اسے شاپر میں ڈال کر دے دی. صالحہ گرتی پڑتی گھر پہنچی خوب مصالحے لگا کر گوشت پکایا سارے گھر میں مصالحے والے گوشت کی خوشبو نے سب کی بھوک کو دو آتشہ کر دیا تھا، سب نے پیٹ بھر کے کھایا،مگر بوٹی لانے اور پکانے والی کو جس نے ساری عمر بھوک کے جہنم میں ظالم بھوک سے لکن میٹی کھیلی تھی، ذرا بھوک نہ تھی اسے لگا وہ جانور جس کی گلابی بوٹی وہ گھر لای تھی کبھی زندہ ہو گا، سانسیں لیتا ہو گا، کھاتا پیتا ہو گا، مگر پھر اسے انسانی بھوک کو مٹانے کے لیے قربان ہونا پڑا، زندگی تیاگنی پڑی، تو پھر جا کے کءی بھوکے پیٹوں کے بھرنے کا سامان ہوا، صالحہ کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کے گرد نواح میں پاے جانے والے تمام جاندار، بشمول انسان و حیوان سب ہی بوٹیاں ہیں، کچھ اجسام کی شکل میں پوشیدہ، کچھ دوکانوں میں سجی ہوی بکنے کے لیے تیار، ہاں وقت، جگہ اور مقام بدل سکتا ہے مگر گوشت خور، گوشت کھانے کا جتن نہیں، صالحہ تھک ہار کے اپنے لاغر وجود کے ساتھ اپنے بسترے پہ گر گءی.اس کے لا شعور میں ہر طرف لٹکا ہوا گوشت ہی گوشت تھا، جس میں جان نہ تھی مگر وہ کءی انسانی جانوں کو اچھی زندگی دینے کا ضامن ضرور تھا بالکل صالحہ کے بے جان وجود کی طرح.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Punnam.naureen1@icloud.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International