Today ePaper
Rahbar e Kisan International

افسانہ. ٹھنڈا، میٹھا کنویں کا پانی

Articles , Snippets , / Thursday, September 4th, 2025

rki.news

تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
پردیسی کوسوں میل کی مسافت طے کر کے آیا تھا، اس کی دراز زلفیں، دھول مٹی سے اٹ کر گارے جیسی ہو چکی تھیں، اس کا سفید براق لبادہ جو گھر سے نکلتے وقت چٹا دودھ جیسا سفید،لوہے کے بکسے سے نکال کر اور کویلوں کی استری دہکا کر بڑے چاو سے استری کر کےاسکی ماں نے اسے پہنایا تھا، بالکل مٹیالہ ہو چکا تھا، اس کے پیروں میں نیے پہنے والے جوتے مٹیو مٹی تھے یہ جاننا ناممکن تھا کہ جوتوں کا رنگ خریدتے وقت کیا رہا ہوگا، کالا یا پھر بھورا؟
پردیسی اتنی لمبی مسافت طے کر کے آیا تھا کہ اس کے پیروں میں جا بجا چھالے تھے، ہونٹوں پہ پپڑیاں جم چکی تھیں, اس کی سانسوں کی رفتار اتھل پتھل ہونے کے بعد اب دھیرے دھیرے تھمنا شروع ہو چکی تھی، جسم میں پانی کی کمی اور کءی گھنٹوں کی پیادہ پا مسافت نے جہاں مسافر کے انگ انگ کو دکھی کرچھوڑا تھا، وہیں مسافر کے حلق میں سرکنڈوں جیسے کانٹے اگ آے تھے،اب یہ کانٹے ناں جہاں بھی آگ آیں، ہمیشہ باعث زحمت و آزار ہی ہوتے ہیں، بھلے پھولوں کے ساتھ ہوں یا زبان سے ادا ہونے والے الفاظ میں یا پھر تشنہ لبی کی انتہا پہ، پیاس کی شدت سے حلق میں آگ آنے والے کانٹے. کانٹوں کا دیس اور کانٹوں کا بھید, پردیسی سو کوہ فاصلہ طے کر کے آیا تھا، یہ ان زمانوں کی بات ہے جب پہیہ ایجاد نہ ہوا تھا، لوگ باگ باربرداری کے لیے، اونٹوں، گھوڑوں اور گدھوں کا استعمال کرتے تھے یا پھر پیدل ہی سفر کی کٹھنایوں سے نبرد آزما ہو جاتے تھے تو سو کوہ اپنے کالے گھوڑے پہ طے کرتے کرتے پردیسی کا زاد راہ بھی ختم ہو چکا تھا اور جسم کا پانی بھی، ہاں خون دل سے پمپ ہوتا ہواپورے جسم میں رواں دواں تھا، سانسوں کی اتھل پتھل بھی دھیمی دھیمی جاری تھی، گرچہ مسافر کا حلیہ کافی حد تک بگڑ چکا تھا، مگر اسے خوشی تھی کہ وہ بحفاظت منزل مقصود پہ پہنچ چکا تھا، یہ منزل مقصود پہ پہنچ جانے کا سرور بھی ناں، عجب سا سکون اور ٹھنڈی چھایا جیسا سکھ ہوتا ہے، پردیسی نے اپنے کپڑے جھاڑے اور اپنے پلاسٹک کے تھیلے میں سے نکال کر اپنی خاندانی پگڑی، اپنے پرکھوں کی میراث اپنے سر پہ جمای، پگڑی سر پہ رکھنے سے پردیسی کا حلیہ کافی حد تک مہذب دکھنا شروع ہو گیا، اب جب کہ پردیسی کو تھوڑی سی دھاڑس ہو گءی کہ وہ قدرے بہتر حلیے میں ہے، تو اس نے گھوڑے کی باگ کو سامنے والے پیپل کے درخت کی ایک نسبتاً نیچے لٹکتی ہوی شاخ سے باندھ دیا، گھوڑا بھی اتنا لمبا سفر اور ایک لمبی بھوک، پیاس کاٹ کر مارے نقاہت کے گرنے ہی والا تھا، جونہی مالک نے اسے منزل پہ پہنچنے کا عندیہ دیا، اس نے پیپل کی. لٹکتی ہوی شاخوں ہی سے چند پتوں پہ منہ مارا اور پھر چاروں ٹانگیں زمین پہ پسار کے استراحت فرمانے میں لگ گیا، سواری تھوڑے سکون میں آ گءی تھی مگر مسافر کی آزمائش ابھی باقی تھی، وہ جس مقصد کے لیے گھر سے بے گھر ہوا تھا، وہ جس مقصد کے لیے پردیسی ہوا تھا، جس مقصد کے لیے وہ پچھلے پانچ دنوں سے سڑکوں پہ در بدر تھا، وہ ابھی ادھورا تھا. پردیسی اتنا سفر طے کر کے اپنے آنجہانی چاچا جی کا اپنی چاچی اور ان کے بچوں سے افسوس کرنے پہنچا تھا، عجب طرز معاشرت ہے، جیتے جی ہمارے شکوے، شکایات پھن پھیلا کے اتنی ڈھٹای اور بے غیرتی سے کسی تناور درخت کی مانند اپنی بانہیں پھیلا کے نہ ہی خود جیتے ہیں اور نہ ہی کسی دوسرے کو جینے دیتے ہیں، چاچا جی کے جیتے جی تو دونوں خاندانوں میں زمینوں کے بٹوارے پہ ایسی ٹھنی کہ ایک طرح سے دونوں کا مرنا جینا تقریباً ختم ہی تھا.اور پھر جب چاچا فوت ہوا تو افسوس کے لیے پردیسی کو آگے کر دیا گیا، پردیسی کے لیے بھی ناراض چاچی اور اس کے بالی بچوں سے مرے ہوے چاچے کا افسوس کرنا شرمندگی کا باعث ہی نہیں موت سے بھی بڑی موت تھا، خیر پردیسی اپنے مرن مٹی حلیے اور حلق میں کانٹوں جیسی پیاس کے ساتھ رشتہ داروں کے کٹہرے میں مرے ہوے چاچے کے افسوس کے لیے ہاتھ باندھ کے مجرموں کی طرح کھڑا ہو گیا، چاچی اور چاچی کے اولاد کے پاس شکوے شکایات کی ایک لمبی فہرست تھی، پردیسی ہاتھوں پہ دھول مٹی اور حلق میں پیاس کے آگے ہوے کانٹوں کے ساتھ ہی دکھے دل کے ساتھ اٹھ گیا، پیاس، پیاس اور پیاس.
پردیسی، دکھے دل اور تھکے
قدموں کے ساتھ اپنی پیاس مٹانے اس کنویں کی جانب چل پڑا، جہاں وہ بچپن میں اپنے چچا زاد بھائیوں کے ساتھ کھیل کود سے فارغ ہو کر ٹھنڈا اور میٹھا پانی پیتا تھا، اس نے کانپتے ہاتھوں سے پانی کا ڈول کھینچا،اس نے گھونٹ گھونٹ کنویں کا ٹھنڈا اور میٹھا پانی پیا، اسے حیرت تھی، رشتے داروں نے پرسے پہ آنے والے رشتہ دار کو سادہ پانی بھی نہ پوچھا الٹا، الٹی سیدھی بھی سناییں اور وہ کنواں جو نہ کسی کا سجن تھا نہ پیارا، اس کے ٹھنڈے اور میٹھے پانی نے پردیسی کو سیر کر دیا.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Punnam.naureenl@icloud.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International