Today ePaper
Rahbar e Kisan International

افطار سپانسرڈ تھا

Articles , Snippets , / Friday, March 21st, 2025

روزہ جسمانی سے زیادہ روحانی عبادت ہے, اور روحانی سے زیادہ جسمانی، روزہ وہ عبادت ہے جس کا اجر صرف اللہ پاک ہی کے پاس ہے, اور روزہ دار اللہ پاک کو اتنا پیارا ہوتا ہے کہ روزہ دار کے منہ کی مشک سے بھی اللہ کو پیار ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات تو محبت ہی محبت اور پیار ہی پیار ہے اگر کوئی چل کے اللہ تعالیٰ کی طرف جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ دوڑ کر اس کی طرف آتا ہے،اللہ اپنے ان بندوں سے بہت پیار کرتا ہے جو اس پہ ایمان لاتے ہیں جو اس کے احکامات بجا لاتے ہیں جو اس کے بتاے ہوے تمام احکامات پہ آنکھیں بند کر کے عمل پیرا رہتے ہیں، جو اللہ پاک کی وحدانیت، حضور پاک صل اللہ علیہ والہ سلام کے آخری نبی ہونے پہ، اللہ پاک کے بھیجے ہوئے تمام انبیائے اکرام پہ، فرشتوں پہ،روز آخرت پہ، اچھی اور بری تقدیر پہ، روز آخرت پہ اور بعد از مرگ کی زندگی پہ مکمل یقین رکھتے ہیں،
روزہ کی افادیت اب سائینسدان بھی مانتے ہیں کہ سال میں تیس چالیس دن کے روزے سے انسانی جسم میں phagolytic activity کی بنا پہ جسم سے فاسد مادے خارج ہو جاتے ہیں اور انسانی جسم ہشاش بشاش ہو جاتا ہے، روزے کی اسی افادیت کی بنا پہ اب دنیا میں intermittent fasting کا رواج جڑ پکڑ چکا ہے کہ یہ وزن کم کرنے کا انتہائی بہترین نسخہ ہے گویا جو بات اہل علم و دانش کو آج ساینسی بنیادوں پہ باقاعدہ ثبوتوں کے ساتھ پتا چل رہی ہے وہ بات خالق بے اس بت میں روح پھونکتے وقت ہی ودیعت کر دی تھی، روزہ ہر مذہب میں فرض کیا گیا تاکہ ایک تو عبادت ہے دوسرے اللہ پاک کے حکم کی پاسداری، تیسرے نفس کو قابو قابو میں رکھنے کی انتہائی بہترین مشق. روزے کے اوقات صبح سحری یعنی پو پھٹنے سے غروب آفتاب تک ہیں، اس دوران عبادات کا ثواب کءی گنا زیادہ ہے، بھوک پیاس سے ہمیں ان لوگوں کے دکھ، درداور محرومیوں کا شدت سے احساس ہوتا ہے جو سارا سال ہی کسمپرسی میں، کھینچ تان کی زندگی کی ناو کو پار لگانے کی تگ و دو میں بر سر پیکار رہتے ہیں، رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں زکوٰۃ، صدقے اور فطرانے کی ادائیگی اسی سماجی اونچ نیچ کو کم کرنے کی ایک کوشش ہے تاکہ روپیہ پیسہ صرف چند ہاتھوں تک ہی نہ رہے. جسمانی عبادت کے ساتھ ساتھ روزہ روح کی پاکیزگی اور بالیدگی کا بہترین موقع ہے کہ ہم اپنے نفس کو تمام الایشوں اور برائیوں سے بچا لیں جیسے، جھوٹ، چوری، بے ایمانی،ملاوٹ ،ذخیرہ اندوزی، ناپ تول میں کمی بے جا اور ضرورت سے زیادہ منافع خوری، حق تلفی، قتل و غارت وغیرہ وغیرہ لیکن بڑے افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ رمضان میں تاجر برادری عوام الناس کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کا کوی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ان کے ماتھے پر سجدوں کے محراب ان کی نمازیں، ان کے روزے ان کے قول و فعل سے بالکل بھی میل نہیں کھاتے کاش ان روزہ داروں کے دل میں خوف خدا جگہ لے لے اور یہ اس منافقت سے باز آ جایں تو لوگوں کی زندگیوں میں کتنی آسانیاں پیدا ہو جایں؟ ، رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں ہی قرآن پاک کا نزول شروع ہوا،کیا ہی بابرکت اور رحمتوں والا مہینہ ہے جس کا انتظار تمام اہل ایمان کو سارا سال رہتا ہے اور پھر رمضان میں عبادات کے ساتھ ساتھ تمام اہل اسلام غرباء اور مساکین کی مدد میں بھی مصروف کار رہتے ہیں، مساجد میں نمازیوں کا رش معمول سے زیادہ ہوتا ہے، تراویح کا اہتمام، ایک عجب روح پرور نظارہ ہوتا ہے بڑوں، بوڑھوں کے ساتھ ساتھ بچے بھی شوق سے تراویح پڑھنے جوق در جوق مساجد میں جاتے ہیں، غریب غربا کی بڑے پیمانے پر افطاریاں کروای جاتی ہیں وہ بیچارے عصر کے بعد ہی سے سارے کام کاج چھوڑ کر قطاریں بنا کر اہل ثروت لوگوں کے گھروں کے باہر کھڑے ہو جاتے ہیں، شہروں کے تقریباً تمام ہوٹلوں میں مہنگے نرخوں سحری اور افطار بوفے کی باقاعدہ شروعات ہو جاتی ہیں اور ان سحر اور افطار پارٹیوں سے لوگ اپنی اپنی بساط کے مطابق مستفید ہوتے ہیں، ہونا بھی چاہیے، کہ لوگ کماتے کس لیے ہیں؟؟؟
لیکن بھلے ان بوفہ پارٹیوں میں درجنوں ڈشز بھی ہوں، طرح طرح کے مشروبات اور من کو بھاتے ہوے کھاجے ہوں مگر وہ بابرکت سحریاں اور افطاریاں جو آج سے تقریباً دو دھایاں پہلے گھروں کی ماسیاں، پھوپھیاں اور ماییں کرواتی تھیں نہ ان جیسی افطاریاں ہیں؟ نہ ان جیسی سحریاں؟ نہ وہ محبتیں ہیں؟ نہ وہ رشتوں کے بھرم،؟ انسانوں نے اپنی جھوٹی نمود و نمایش کو بڑھاوا دینے کے لیے خاندانی قدروں کا جس طرح سے بیڑہ غرق کر ڈالا ہے اس کی مثال ہی نہیں ملتی. اس رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں جو چیز مجھے سب سے زیادہ پریشان کر رہی ہے وہ زکوٰۃ اور خیرات سے چلنے والے رفاہی اداروں کی طرف سے دییے جانے والے بے شمار افطار ڈنر ہیں جہاں شہر کے معززین مدعو ہوتے ہیں بڑے بڑے فاییو سٹارز ہوٹلز کے ہالز بک ہوتے ہیں، سجاوٹ ہوتی ہے، سٹیج تیار ہوتے ہیں، صدارت ہوتی ہے، مہمانان گرامی کی تقاریر ہوتی ہیں اور افطاری کے لیے معززین شہر کا ایک جم غفیر ہوتا ہے افطاری کے نام پہ ایک دعوت شیراز ہوتی ہے جسے باجماعت انجوائے کیا جاتا ہے مجھے ان افطار پارٹیوں کے اخراجات پہ بات نہیں کرنی کیونکہ ایسی تمام افطار پارٹیاں عام طور پر سپانسرڈ ہوتی ہیں مگر مجھے ایسی تمام افطار پارٹیوں میں کوی بھی غریب غربا یا مستحق شخص نظر نہیں آیا تو کیا ہمارا ضمیر اتنا ہی مردہ ہو چکا ہے کہ ہم غریب غربا اور مستحکین کو لمبی قطاروں میں کھڑا کروانے کے بعد چند لقمے چاول، ایک عدد سموسہ، دو پکوڑے، دو کھجوریں اور ایک گلاس روح افزا کا پلا کر رب کے حضور سر خرو ہو سکیں اور خود فاییو سٹارز ہوٹل میں افطار بوفے اس طرح سے کریں کہ آدھے سے زیادہ افطار ضایع کر دیں وہ افطار جو کہ سپانسرڈ تھا. غور فرمائیے گا.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendrpunnam@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International