rki.news
تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
شاعر مشرق٬حکیم الامت٬مفکر اسلام ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کے کلام سخن میں تصور شاہین منفرد حیثیت رکھتا ہے۔اس تصور شاہین میں نوجوان نسل کے لیے قوت اور توانائی کا پیغام ہے۔یہ روشن حقیقت ہے کہ تعلیم کا عمل شخصیت اور کردار میں نکھار پیدا کرتا ہے۔قدرت کے مناظر پر نگاہ ڈالیں تو بے شمار پرندے بھی موجود ہیں۔جن کی خوبصورتی اور خواص بھی جدا جدا ہیں۔شاہین ایک ایسا پرندہ ہے جو دوسروں کا شکار کیا ہوا نہیں کھاتا بلکہ اپنا شکار خود کرتا ہے۔اس کی پرواز بھی بلند ہوتی ہے۔اقبالؒ واحد ایسے شاعر ہیں جن کے کلام سخن میں شاہین کا ذکر ہے۔باقی کسی شاعر نے ذکر نہیں کیا۔اس ضمن میں اقبالؒ کی شاعری میں نوجوان نسل کے لیے ایک جامع اور واضح پیغام موجود ہے۔بقول اقبالؒ:-
تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
گویا شاعر مشرق نےنوجوان نسل کو یہ پیغام دیا کہ اپنی سوچ اور فکر کو بلند رکھو اور مقاصد عظیم کی تکمیل کے لیے ثابت قدم رہتے ہوۓ زندہ رہو۔عصرنو کے تقاضے بھی تو یہی ہیں کہ نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت ایسے خطوط پر کریں جن سے انفرادیت جھلکتی ہو۔احساس غالب ہو۔بہت پیارے اسلوب سے اقبالؒ دل کی بات کہتے ایک مثبت اظہار کرتے ہیں۔بقول اقبالؒ:-
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
جنگ آزادی ہو کہ کاروان حیات کا سلسلہ غیرت اور حمیت کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔نوجوان نسل چونکہ ملک و قوم کا سرمایہ ہوتی ہے۔اس کی مثالی اور جامع تعلیم سے ہی تقدیر بدلی جا سکتی ہے۔عہد حاضر میں تعلیمی اداروں کا کردار بہت اہمیت رکھتا ہے۔اس لیے تعلیمی ادارے ہوں کہ مساجد بہترین درس کی ضرورت ہے۔فرقہ واریت سے تو زندگی کی رونقیں چھن جاتی ہیں۔اسلامی تعلیمات کا مخزن تو قرآن مجید اور سیرت رسولؐ ہے۔اس سے استفادہ ہی زندگی میں انقلاب کا باعث بنتا ہے۔یہ بات تو مسلمہ ہے وہ قوم اور ملک ترقی کرتا ہے جہاں نوجوان نسل تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ ہو۔اس ضمن میں دینی مدارس اور تعلیمی اداروں کی ذمہ داریاں بہت اہم ہیں۔تعلیم کا عمل بہترین حکمت عملی سے جاری رہے تو نوجوان نسل میں شاہینی صفات پیدا ہوتی ہیں۔اوصاف حمیدہ سے ہی زندگی کی خوبصورتی پیدا ہوتی ہے۔قوت فکروعمل میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔مفکر اسلام کی بامقصد شاعری کے تناظر میں نوجوان نسل میں تحمل اور بردباری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔عہد حاضر کے حالات کے مطابق عالمی سطح پر پیدا ہونے والی تبدیلیوں کے پیش نظر جامع تعلیم کی ضرورت ہے۔وقت کا تقاضا تو یہی ہے کہ بچوں کو ادب و احترام سے زندگی بسر کرنا سکھایا جاۓ۔”شکار مردہ سزاوار شہباز نہیں“کے اوصاف سکھاۓ جائیں۔عزت کے ساتھ زندہ رہنا ہی کامیابی کی دلیل ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبالؒ کو شاہین کی علامت کیوں پسند ہے؟اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔تاہم ظفراحمد صدیقی کے نام لکھے گئے خط میں اقبال کا انداز بیاں کس قدر غور طلب ہے۔”شاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ تشبیہ نہیں ہے اس جانور میں اسلامی فقر کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں ۔خود دار اور غیرت مند ہے۔کسی اور کا شکار کیا ہوا نہیں کھاتا۔بے تعلق ہے کہ آشیاں نہیں بناتا۔بلند پرواز ہے۔تیزنگاہ ہے“۔اقبال کے نزدیک یہی صفات مردمومن کی بھی ہیں۔وہ نوجوانوں میں یہی صفات دیکھنے کے خواہشمند ۔شاہین کے علاوہ کوئی اور پرندہ ایسا نہیں جو جوانوں کے لیے قابل تقلید نمونہ بن سکے۔
Leave a Reply