Today ePaper
Rahbar e Kisan International

اقرا، پڑھو اور پڑھو

Articles , Snippets , / Sunday, April 27th, 2025

rki.news

ہارون رشید قریشی!
علم ازل تا ابد انسانی روح کی پیاس ہے۔ اور اس کے لیے جدوجہد کی چاہ اللہ نے بنی نوع انسان کے دل میں اپنی سب سے پہلی وحی واضح کر دی۔ اس وحی میں فرمایا گیا اقرا یعنی پڑھو۔ بنی نوع انسان کو باری تعالی کی طرف سے کو پہلا پیغام جو ملا تھا اس میں علم کی تلقین کی گئی۔ کہتے ہیں کہ کتاب انسان کی بہترین دوست ہے۔ کتاب علم کی شمع ہے جو اندھیروں میں راستہ دکھاتی ہے، شعور جگاتی ہے اور فکر کی دنیا کو وسعت عطا کرتی ہے۔ مگر افسوس، سوشل میڈیا کے اس تیز رفتار دور میں مطالعے کی یہ عظیم روایت دم توڑتی محسوس ہو رہی ہے۔ ہماری نوجوان نسل موبائل کی اسکرین پر انگلیاں پھیرتے پھیرتے، کتابوں کی خوشبو، ورق الٹنے کی سرسراہٹ اور علم کی روشنی سے دور ہوتی جا رہی ہے۔

ایسے میں ریڈ پاکستان کی تحریک ایک تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند سامنے آئی ہے، جو اس مردہ ہوتی عادت میں نئی جان ڈالنے کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہے۔
ریڈ پاکستان نہ صرف مطالعے کی اہمیت اجاگر کر رہا ہے بلکہ قوم کو دوبارہ کتابوں سے جوڑنے کا خواب بھی شرمندۂ تعبیر کر رہا ہے۔ اسی مقصد کے علمبردار، ریڈ پاکستان کے چیئرمین، جناب فرخ شہزاد ڈال، حال ہی میں ایک نجی دورے پر قطر تشریف لائے۔ ان کے اعزاز میں ریڈ پاکستان قطر چیپٹر کی صدر محترمہ شاہدہ خان نے ایک شاندار اور پرتکلف ضیافت کا اہتمام کیا، جس میں پاکستانی کمیونٹی قطر سے تعلق رکھنے والی معزز شخصیات — ارشد ہاشمی، جاوید اقبال، قیصر انور، لیاقت ملک اور رشید عتیق نے شرکت کی۔ یہ محفل صرف رسمی ملاقات تک محدود نہ رہی، بلکہ فکری تبادلۂ خیال اور بصیرت افروز گفتگو کا حسین گلدستہ بن گئی۔اسی موقع پر راقم اور مقامی سنئیر صحافی لیاقت ملک کو فرخ شہزاد ڈال سے “ریڈ پاکستان کے قیام”، مقاصد اور منصوبوں پر بات چیت کا نادر موقع میسر آیا۔ اور گفتگو قارئین کی پیش خدمت ہے۔

ہارون: ریڈ پاکستان کی بنیاد کیسے رکھی گئی اور اسکا مقصد کیا ہے؟
فرخ شہزاد: ( پُر اعتماد لہجے میں) “ریڈ پاکستان کا آغاز 2011 میں کیا گیا تھا، جبکہ 2014 میں اسے باقاعدہ ایک این جی او کی حیثیت سے رجسٹر کروایا گیا۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ قوم کے ہر فرد کو کتاب سے جوڑا جائے اور ایک ایسی ‘نالج سوسائٹی’ قائم کی جائے جہاں علم کو سب سے بڑی دولت سمجھا جائے۔ ہم قرآن پاک کی سورۃ الزمر آیت نمبر 9 کو اپنا رہنما اصول مانتے ہیں: ”کہیے، علم والے اور بغیر علم والے برابر نہیں ہو سکتے؟” ہم firmly believe کرتے ہیں کہ علم انسانی ترقی کی پہلی سیڑھی ہے۔ علم کا حاصل پڑھائی کے بغیر ممکن نہیں۔ جتنا زیادہ معاشرہ پڑھنے لکھنے کی طرف راغب ہو گا، اتنی ہی تیزی سے ترقی کی منازل طے کرے گا۔ اسی فلاسفی کی بنیاد پہ اس مقصد کا آغاز کیا اور الحمدللہ، ابتدا ہی سے ہماری محنت کے مثبت نتائج سامنے آئے، اور کامیابی نے ہماری توقعات سے بڑھ کر ہمارا ساتھ دیا۔”

ہارون: ریڈ پاکستان کے تصور نے جنم کیسے لیا؟
فرخ شہزاد (مسکراتے ہوئے):”ریڈ پاکستان دراصل میرے اپنے ذاتی مطالعے، کتابوں سے گہری محبت، اور سوسائٹی میں فکری انقلاب لانے کے خواب کا نتیجہ ہے۔ میں خود ایک باقاعدہ بک ریڈر ہوں اور میں نے اپنی زندگی کی بیشتر حکمت عملی کتابوں سے حاصل کی۔ اور اس سے مجھے ریڈ پاکستان کا آئیڈیا ملا۔ مجھے یہ بات بہت شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ پاکستان کا ابھی تک ترقی یافتہ ممالک میں شمار نہ ہونے کی وجہ عوام کا خصوصا نوجوانوں کا انٹلکچول نالج سے دور ہونا اور پاکستان کا سب سے بڑا خسارہ علمی خسارہ ہے۔ اور پاکستانی سوسائٹی کا علمی سرگرمیوں سے دور ہونا اتنا بڑا خسارہ ہے کہ اس کی بھاری قیمت ہم ہر روز چکا رہے ہیں۔ اس لیے جب تک اس ڈگر پہ ہم واپس نہیں چل پڑتے تب تک ہماری سوسائٹی اور نہ ہمارا ملک کامیاب ہو سکتا ہے۔ اور اسی یقین سے ہے کہ اگر ہمیں پاکستان کو ترقی یافتہ قوموں کی صف میں لانا ہے تو ہمیں معاشرتی سطح پر پڑھنے کی عادت کو عام کرنا ہو گا۔ کیونکہ مطالعہ صرف معلومات میں اضافہ نہیں کرتا، بلکہ سوچنے، سوال اٹھانے اور نئے راستے تلاش کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے — اور یہی صلاحیت کسی قوم کی اصل متاع ہے۔”

ہارون: آپ کا ادارہ اس حوالے سے پاکستان میں کن منصوبوں پہ کام کر رہا ہے؟
فرخ : “ہمارا سب سے زیادہ فوکس مطالعے کی عادت کو فروغ دینا ہے اور ہمارے سبھی پروگرامز اس کے ہی متعلق ہیں۔ ہمارے دو اہم بنیادی پروگرامز ہیں:پہلا پروگرام ہے “آگاہی ” اس میں سیمینارز ‘ سوشل میڈیا کیمپینز ‘ لکھنا ‘ تقریر اور معاشرے کو خود کے ساتھ جوڑنا شامل ہے۔ ہمارا دوسرا پروگرام پریکٹیکل پروجیکٹس پہ مشتمل ہے۔ بچوں اور والدین میں مطالعے کی عادت پیدا کرنے کے لیے دنیا بھر سے نو ’ریڈنگ ماڈلز ‘ کو بنیاد بنا کر پیش کیا۔ یہ ریڈنگ ماڈل اس حد تک منفرد ہے کہ اگر کوئی بچہ دو سے تین سال اس پروگرام میں گزار لے گا تو اس میں کتابوں سے انسیت اور ان کی محبت اس کے دل میں گھر کر جائے گی اور اس پہ زیادہ محنت کرنے کی ضرورت نہ ہو گی۔ ہم اسکولوں میں ایک ایسا سسٹم لا رہے ہیں جس میں بچے روزانہ ایک کہانی سنائیں گے۔ اور ہم قطر حکومت کو بھی اس ماڈل کو متعارف کرانا چاہتے ہیں کہ کیسے کتابوں کی محبت کو پیدا کیا جا سکتا ہے؟ اور کیسے ریڈنگ اسکولز بنائے جا سکتے ہیں؟ اس کے لیے کوئی فنڈنگ یا کوئی نیا انفراسٹرکچر نہیں چاہئیے ہمیں۔ اس کے لیے جاپان کی ہی مثال لے لیجئے کہ وہاں روزانہ کی بنیاد پہ دس ہزار اسکولز میں اس کی پریکٹس ہوتی ہے کہ صبح وقت جب اسمبلی ہوتی ہے تو اک بچہ کتاب کے ساتھ نمودار ہوتا ہے اور اس میں لکھی ایک کہانی کو وہ سناتا ہے۔ عرصہ دراز سے جاری پانچ منٹ کی اس ایکٹیویٹی نے ایک قوم کو مکمل طور پہ ٹرانسفارم کر کے رکھ دیا ہے۔ یو کے میں بھی ایسے ہی اک پروگرام کی پریکٹس کی جاتی ہے۔ ہمارے ایک ریڈنگ ایمبیسیڈر ہیں بہت ہی نامور’ انہوں نے ہمیں بتایا کہ انکا بچہ جس اسکول میں جاتا ہے وہاں ہفتے کے ایک دن کا ایک گھنٹہ مخصوص کیا گیا ہے جس میں چپڑاسی سے لے کر پرنسپل تک ہر ایک موجود شخص مطالعہ کرتا ہے۔ ہر طرف کتابی رجحان ہے۔ اور یہ ایک مددگار ومعاون ایکٹیویٹی ثابت ہوئی ہے۔

ہارون: آپ پڑھنے کے رجحان کی بات تو کرتے ہیں مگر کسی بھی انسان کو کس قسم کی کتاب کا مطالعہ کرنا چاہئیے ؟ سائنس و ٹیکنالوجی یا پھر صوفیانہ؟
فرخ: “ہم کتابوں کی ہر فارم کو اہمیت دیتے ہیں، چاہے وہ ہارڈ کاپی ہو یا ای بک۔ اصل بات تو مطالعہ کی عادت ہے۔ چاہے وہ ہارڈ ہو یا ای بک ‘ سائینسی ہو یا فکشن۔تاہم، ہمارا مشورہ یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو، ہارڈ کاپی کو ترجیح دیں تاکہ کتاب کا حقیقی لمس محسوس ہو سکے۔ باقی آپ اپنے کیرئیر کے متعلق لکھی گئی کسی بھی کتاب کو روزانہ کی بنیاد پہ دس منٹ ضرور دیا کریں۔ اگر آپ روزانہ صرف دس منٹ بھی کتاب پڑھیں، تو تین سال میں آپ اتنے ماہر ہو سکتے ہیں جتنا کہ کوئی پی ایچ ڈی کر کے آتا ہے۔اور یہ حقیقت پر مبنی بات ہے امریکہ کی ایک ریسرچ کے مطابق پیشے سے متعلق پڑھی گئی روزانہ کی بنیاد پہ کتاب بینی آپ کو علمی دانش ور اور فصیح و بلیغ بنا سکتی ہے۔”
ہارون: آپ نے اب تک ریڈ پاکستان کے تحت کتنی لائبریریاں بنائی ہیں؟
فرخ: “ہم نے اب تک 52 لائبریریاں قائم کی ہیں۔ ان میں سے 4 پبلک لائبریریاں ہیں، اور باقی تعلیمی اداروں یا پسماندہ علاقوں میں قائم کی گئی ہیں، پبلک لائبریری اس وقت گلگت بلتستان، فاٹا، کشمیر میں قائم کی گئی ہیں باقی تعلیمی لائبریریز اس وقت سندھ، اور اسلام آباد کی کچی آبادیاں اور سرکاری اسکولز شامل ہیں۔” آپ حیران ہوں گے چائنہ میں سال 1980 کے بعد لائبریری بنانے کا رجحان پیدا ہوا اور ابھی تک چائنہ 6 لاکھ سے زیادہ لائبریریاں بنا چکا ہے۔ امریکہ میں بھی ایک لاکھ 23 ہزار کے قریب لائبریریاں عوامی سطح پہ بنائی گئی ہیں اور وہاں شہر تو شہر ہر چھوٹے بڑے قصبہ میں لوگوں کو جدید طرز کی لائبریریاں مہیا کی گئی ہیں۔ اور جدید چند یورپی ممالک میں ہر ڈیڑھ کلو میٹر کے بعد اک لائبریری کا انعقاد کیا گیا ہے تاکہ عوام کی رسائی کتابوں تک آسان ہو۔ ویسٹرن یورپ اور افریقی ممالک اس بات کو یقینی بنا رہے کہ عوام میں کتب بینی کا رجحان تیزی سے بڑھے اور اس سلسلے میں وہ باقاعدہ اپنی درسگاہوں میں اس کا اہتمام کرنے کے علاؤہ مختلف کمپینز اور کانفرنسوں کا انعقاد بھی یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتے نظر آ رہے ہیں۔

ہارون: ریڈ پاکستان میں خاتون کا کیا کردار ہے یا کسی بھی پلیٹ فارم کے لیے خواتین کا کردار کس حد تک ضروری ہے ؟
فرخ: ریڈ پاکستان ہو یا کوئی اور پلیٹ فارم، خواتین کا کردار کسی ریڑھ کی ہڈی سے کم نہیں ہوتا۔ خواتین علم کی سفیر بھی ہیں اور معاشرتی تبدیلی کی معمار بھی۔ جب ایک خاتون کتاب اٹھاتی ہے تو دراصل وہ ایک پورے خاندان، ایک نسل، ایک سوچ کو روشنی میں لے آتی ہے۔ اور یہ کہنا کہ خواتین کی حیثیت علمبردار سی ہے تو غلط نہ ہو گا اور ریڈ پاکستان جیسے مشن میں ہماری سوسائٹی کی خواتین نے بھی گرمجوشی سے اپنا کردار ادا کیا۔ ان میں سے چند نام جن کو ریفر کرنا بہت مناسب رہے گا۔ ہماری قطر چیپٹر کی صدر “شاہدہ خان ” ‘ سید نمیرہ محسن (پریذیڈنٹ گلف ) اور سیدہ فاطمہ حسن گیلانی بطور سی ای او پاکستان کام کر رہی ہیں۔ اور ان کے ساتھ کے سبب ریڈ پاکستان کی بنیاد ڈالنا ممکن ہوا۔ اور بلکل ریڈ پاکستان جیسے مشن میں خواتین کی شمولیت اس لیے ناگزیر ہے کہ وہ نہ صرف اپنے گھروں میں مطالعے کی روایت کو زندہ کرتی ہیں بلکہ سوسائٹی میں مثبت تبدیلی کا ایجنڈا بھی آگے بڑھاتی ہیں۔ ان کی شمولیت سے تحریک کو وہ نرمی، تسلسل اور فکری گہرائی ملتی ہے جو صرف نعرے لگانے سے حاصل نہیں ہوتی۔

ہارون : بچوں میں مطالعے کی عادت کیسے پیدا کی جا سکتی ہے؟
فرخ: “بچوں میں مطالعے کی عادت ڈالنے کے دو بنیادی طریقے ہیں:اول: والدین کی شمولیت: بچوں کو سونے سے پہلے پانچ منٹ قبل کتاب پڑھ کر سنائیں۔ اور یہ سب سے بڑا مثبت طریقہ ہے۔ دوئم: اسکولوں میں ’بک ٹائم ‘ پروگرام متعارف کروائے۔ ہم نے 9 سسٹمز تیار کیے ہیں جو والدین کو بچوں کے ساتھ کتابی تعلق بڑھانے میں مدد دیتے ہیں۔”

ہارون: بڑی عمر میں مطالعہ کی عادت کیسے اپنائی جاسکتی ہے ؟
فرخ: اس عمر میں کسی بھی نئی عادت کو اپنانا بہت ہی چیلنجنگ اور جدوجہد سے بھرپور مرحلہ ہے کیونکہ اس عمر میں کسی بھی نئی عادت کو اپنانے کی ذہنی قبولیت اور نشوونما کم ہو جاتی ہے بانسبت چھوٹے بچوں اور نوجوانوں کے۔ ماہرین نفسیات مطالعہ نے اس کے متعلق متعدد طریقے متعارف کروائے ہیں۔ جن کے ذریعے آپ اکیس دنوں میں مطالعہ کی عادت کو اپنا سکتے ہیں۔ اور بنیادی طور پہ اسکے دو طریقے ہیں۔ لکھ کر صبح، دوپہر اور شام اپنے لاشعوری ذہنی حصے کو ایک واضح جملے سے کمانڈ دینا — خصوصا اس زبان میں جس زبان میں وہ مہارت رکھتا ہو۔ پازیٹو کمانڈ اور ایک ہی جملہ ہو اس میں تبدیلی نہ ہو۔ مثلاً ’ہر روز مطالعہ کرو‘۔ 2. دن بھر اسی فقرے کو دہرانا تاکہ ذہن اس عمل کو اپنی فطرت بنا لے۔” اور یہ بات آپ کے ذہن کے لاشعوری حصے میں رچ بس جائے۔

ہارون : پاکستان میں تعلیمی ادارے مطالعے کی عادت کیوں نہیں اپناتے؟
فرخ: بدقسمتی سے پاکستانی تعلیمی ادارے کتابی کلچر سے دور ہیں۔ اور نہ ہی اس متعلق وہاں کوئی سرگرمی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس کے لیے ہم کوشش کر رہے ہیں پاکستان اور بین الاقوامی ادارے، جیسے افریقہ کی اسلامک یونیورسٹی یا یونیورسٹی آف گیمبیا میں، ہر مہینے کتابوں پر مبنی ڈسکشن کلپس منعقد کیے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہر سال ہم کتابوں کی ایک فہرست جاری کرتے ہیں۔ہارڈ کاپیاں دستیاب نہ ہو تو ای بکس مہیا کر دیتے ہیں واٹس ایپ گروپس کے ذریعے۔ اسکے علاؤہ کانفرنسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ان کانفرنسوں میں ہم طلبہ کے پسندیدہ استاتذہ کو مدعو کرتے ہیں تاکہ وہ کتابوں کی اہمیت پہ بات کریں۔ اور اپنے بیسٹ ریڈرز کو ان تقریبات کا حصہ بننے کے لیے راغب کرتے ہیں اور اس کے علاؤہ “ففٹی بکس آف دی ائیر ” کے نام سے ایک مقابلہ رکھتے ہیں۔ جس میں انسانی ترقی اور اقتدار پہ لکھی گئی کتابوں کی فہرست جاری کی جاتی ہیں۔ اور پھر آخری مقابلے کا انعقاد ہوتا ہے جس میں چند ایک لوگ ہی پہنچ پاتے ہیں اور اس مقابلے کی جانچ کے لیے ہم نامور ریٹائرڈ پروفیسرز اور ہمارے ایکسپرٹس اسکالرز ان بچوں کو انٹرویو کرتے ہیں۔ہم پاکستان میں بھی یہی سسٹم لانا چاہتے ہیں، تاکہ تعلیمی ادارے صرف رٹے بازی کی بجائے کتابی ذوق اور علمی گفتگو کو فروغ دیں۔”

ہارون: ریڈ پاکستان ای بکس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے یا ہارڈ بکس کی؟
فرخ : آن لائن ای بک کا فائدہ یہ ہے کہ اس وقت تیس کروڑ کتابیں بنا کسی قیمت کے اوپن سورس میں پڑی ہوئی ہے اور انسانی تاریخ میں یہ ایک بہت بڑی سہولت ہے۔ اس لیے اس کی حوصلہ افزائی نہ کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے۔ گوگل ایک پروجیکٹ پر کام کر رہا ہے جلد ہی تقریبا دو عرب کتابیں ای بک میں تبدیل ہو جائیں گی۔ اس پروجیکٹ کے علاؤہ گوگل دن بہ دن اس تعداد کو بڑھا رہا ہے لیکن ہم ہارڈ کاپی کی ترغیب اس لیے دیتے ہیں تاکہ آپکا کتاب کے ساتھ رشتہ جڑ سکے۔ آپ کتاب کے لمس کو محسوس کر سکیں۔ تاکہ سائینٹیفک اور سائیکالوجی فائدے آپکو مل سکیں۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ قرآن پاک ہاتھ میں پڑھنے سے جلدی اور ساری عمر یاد رہتا ہے۔

ہارون: عالمی سطح پہ ریڈ پاکستان کی پہچان کو مستحکم بنانے کے لیے آپ کن منصوبوں پہ کام کر رہے ہیں ؟
فرخ : اس کے لیے ادارہ دو پروجیکٹس پہ کام کر رہا ہے۔ ایک تو ادارہ فارنرز ‘ اسکالرز ‘ بک رائٹرز ‘ لائبریرین اور اساتذہ پہ مشتمل طبقوں کو خود کے ساتھ جوڑ رہا ہے۔ اس وقت ہمارے ادارے کے ساتھ ساٹھ بین الاقوامی اسکالرز منسوب ہیں۔خاص طور پہ مغربی علاقوں سے ‘ افریقہ اور عرب ممالک کی شخصیات بھی شامل ہیں۔ ان میں ڈاکٹر بلال فلیپ بھی اس ادارے میں شامل ہیں۔اور دوسرے انٹرنیشنل پروجیکٹ میں ہم کوشش کر رہے ہیں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شامل کریں۔ تاکہ یہ پیغام ساری دنیا تک پہنچ سکے۔

ہارون: پاکستان میں برین ڈرین کو روکنے کے لیے ریڈ پاکستان کا وژن کیا ہے؟
فرخ:”ہمیں پاکستان میں برین ڈرین روکنے کی ضرورت ہے، اور اس کے لیے ہمیں کتابوں سے محبت اور مطالعے کی عادت کو فروغ دینا ہوگا۔ میں خود ایک بک ریڈر ہوں، اور یہ عادت ہمیں بہت سے نئے آئیڈیاز فراہم کرتی ہے۔ اگر ہم کتابوں سے دور ہوں گے تو یہ ہماری قومی کمزوری بن جائے گی، جس کی قیمت ہم روزانہ چکاتے ہیں۔ جب تک ہم علم کی طرف واپس نہیں آتے، تب تک بہتری ممکن نہیں۔”

اس گفتگو کا اختتام اس بات پر ہوتا ہے کہ تعلیم کا فروغ اور کتابوں سے تعلق استوار کرنا معاشرتی ترقی کی بنیاد ہے۔ فرخ صاحب کے اقدامات بچوں میں مطالعے کی عادت ڈالنے کے حوالے سے اہم ہیں، جو پاکستان اور دنیا بھر میں علم کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں معاون ثابت ہوں گے۔ تعلیم کے ذریعے ہم اپنے معاشرے کو بہتر بنا سکتے ہیں اور ایک تعلیمی انقلاب کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں۔
28 اپریل 2025


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International