از قلم: ام حبیبہ
لفظوں میں بلا کی تاثیر ہوتی ہے۔الفاظ ہی انسان کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ناامید کو امید دیتے ہیں۔ شکست خوردہ کو فتح کی سیڑھیوں پر لے آتےہیں۔اور یہی الفاظ کمان سے نکلنے والے تیر کی مانند زبان سے نکلتے ہی انسان کو مکمل طور پر چھنی کر دیتے ہیں۔ محمد مستحسن جامی نے کیا خوب لکھا ہے ؛
؎ لکھ کے رکھ دیتا ہوں الفاظ سبھی کاغذ پر
لفظ خود بول کے تاثیر بنا لیتےہیں
الفاظ بظاھر تو زبان سے ادا ہونے والے چند حروف ہوتے ہیں۔لیکن ان کی دھاڑیں بہت تیز ہوتی ہیں جو کہ کسی بندوق یا خوفناک ہتھیارسے زیادہ خطرناک ہوتی ہیں۔بعض اوقات ہماری زبان سے نکلنے والے الفاظ کسی کے لیے مسلسل ذہنی اذیت کا سامان ہو سکتے ہیں۔اور ہوسکتا ہے کہ یہی الفاظ بعض اوقات کسی کےاندرزندگی کی رمق پیدا کر دیں۔الفاظ محض حروف یا احساسات کے اظہار کا وسیلہ نہیں بلکہ کسی کی شخصیت کا اظہار ہوتے ہیں ۔گفتگو کے انداز سے انسان کے وقار کا پتہ چلتا ہے۔الفاظ ہی کسی کی شخصیت کو بلند کرنے یا گرانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ الفاظ بذاتِ خود نقصان دہ نہیں ہوتےبلکہ بولنے والے کے انداز اورلہجے سے وہ خوبصورت یا بدتر بن جاتےہیں۔لہذا کوشش کریں کہ جب بھی الفاظ کا چناؤ کریں سوچ سمجھ کر اور مثبت الفاظ کا چناؤ کریں۔ایسے الفاظ کا چناؤ کریں جو کسی کے لیے زندگی جینے کی امنگ پیدا کرے نہ کہ ایسے الفاظ جو کسی کی عزت نفس کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔
Leave a Reply