وقت کی گاڑی کو کبھی مت تھامو جو تھامنے سے کبھی یہ رکتی نہیں ہے۔
کہ زندگی کی شاہراہیں کبھی مڑتی نہیں ہیں۔
آؤ مل کر ہر اُس پل کو تھامیں کہ سب رنگوں کو وقت کی شاخوں پر باندھیں۔
آؤ یادوں کی پٹاری کو ڈھونڈیں
اور نکالیں اس میں سے ہر وہ صبح … جس میں مہکتی تھی باتوں کی گونجیں۔
وقت کی ہر شام صدیوں پر تھی بھاری
کہ کوئی بھی لمحہ کسی بھی یاد سے نہ تھا عاری
گواہ کریں گے صدی کے ہر اُس باب کو
کہ دفن کیے تھے جس میں ہم نے سکھیوں کے راز … رنگیں خوابوں کے ساتھ
ہیں یہ یادیں زندگی بھر کا سرمایہ کہ ہم نے عمر کے تسلسل میں اسکو بہت آزمایا
دعا ہے ہماری
کہ سپنوں کی یہ نگر یا … اُمنگوں کی ڈگریا
یونہی شاد رہے ۔ ہمیشہ آباد رہے
از قلم حنا یاسمی
Leave a Reply