rki.news
تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
پیارے قارئین!اللہ کی رحمتوں کی برسات کا موسم ماہِ رمضان اختتام پذیر ہونے کو ہے۔مسلمانوں نے دنیا بھر میں اپنے رب کریم کے احکامات بجا لاتے ہوۓ یکم رمضان سے روزے رکھنا شروع کیے۔عجب نظارے تھے اور سکون و اطمینان کی کیفیت تو اپنی مثل آپ ۔سحری کا اہتمام اور دن بھر روزہ رکھنا ٬خواہشات پر قابو پانا ٬نماز کے اوقات کی پابندی٬تلاوت٬تسبیحات ٬افطاری اور نماز تراویح میں قرآن مجید سننا گویا ہر لحاظ سے عام معمولات زندگی سے ہٹ کر ایک ضابطہ اور نظم و ضبط کی پابندی کرنا عجب لذت آشنائی ۔ہر فرد تھوڑے سے کھانے پر صبر کرتا اور قناعت کرنا اپنی زندگی کا مقصد اولین سمجھتا ہے۔گویا مساجد بھی اس قدر آباد کہ ہر طرف سے اللہ کی رحمت کی برساتیں سکون و اطمینان کی رعنائی بکھیرتی ہیں۔اعتکاف٬جمعة الوداع٬لیلة القدر کی برکات گویا مسلمانوں کے لیے اللہ کریم کی طرف سے رزق میں بھی اضافہ اور اطمینان کی باد نسیم کا چلنا کس قدر خوشگوار موقع ہے۔تین عشروں پر مشتمل رحمت٬مغفرت اور نجات ماہ مبارک اپنی تمام تر رعنائیوں سے اختتام کے قریب ہے۔دعا ہے اللہ کریم عبادت گزاروں کی محنت قبول فرماۓ اور مشکلیں آسان فرماۓ۔اب عید کی خوشیاں بھی سر پر ہیں۔عالم اسلام میں اتحاد اور بھائی چارہ سے عبادات کا تسلسل جاری ہے اور عید کے دن بھی اتحاد عالم اسلام کا اظہار ہو گا۔دنیا بھر کے مومن مسلمان عید منائیں گے۔اس عید کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اسے عید الفطر کا نام دیا جاتا ہے۔اس کی بہترین خوبی یہی ہے کہ پورے ماہ میں روزوں میں کمی کوتاہی کے ازالہ کے لیے فطرانہ ادا کیا جاتا ہے۔مجبور اور ضرورت مند لوگوں تک یہ رقومات پہنچتی ہیں تو وہ بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔جونہی شوال کا چاند نظر آتا ہے تو مہینہ بھر روزے کی بناء پر انسان سختیاں جھیلتا ہے اور کھانے پینے کے تمام دستیاب وسائل سے مکمل پرہیز کرتے اللہ کی رضا کو اولیت دیتا ہے تو روحانی خوشی عید کی صورت میں ملتی ہے۔اس وقت عالم اسلام میں ہمدردی اور مساوات کے جذبہ کو زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔بقول شاعر:-
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
مسلمانوں سے ایک بہت بابرکت مہینہ الوداع ہونے کو ہے۔اس ماہ مبارک کی عنایات انسان شمار کرے تو نہیں کر سکتا۔ایک ایک لمحہ بہت قیمتی ہے۔اس لیے دل و نگاہ سے مسلمان ہوتے اس بابرکت موسم سے خوب فاٸدہ حاصل کرنا چاہیے۔رب کے حضور التجا کرنی چاہیے کہ ملت اسلامیہ پر مشکلات کم ہوں اور اس کے فضل کی برسات کھل کر برستی رہے۔اس ضمن میں یہ بات کہنا ضروری خیال کرتا ہوں کہ عالم اسلام میں محبت اور الفت کے سمن زار زندہ کیے جاٸیں اور حسن اخلاق کی ہواؤں کو ہم نوا بنایا جاۓ۔مصیبت زدہ مسلمانوں کا احساس کیا جاۓ۔ان کی خوشیوں کا اہتمام کیا جاۓ۔یہ بات تو مسلمہ ہے کہ انتقام کی آگ سے سماج جل کر خاکستر ہوتا ہے اور نفرت و تشدد کی پرخطر ہواؤں سے زندگی اداس ہوتی ہے۔ماہ رمضان چونکہ انسان کی روحانی تربیت کے لیے قدرت کی طرف سے بہت بڑا انعام ہے۔اس لیے اس کے آداب کی پابندی کرتے ہوۓ قوت برداشت کو فروغ دینا چاہیے اور صبروتحمل کو اہمیت دینی چاہیے۔عفو و درگزر تو ایسی خوبی ہے جس سے نہ صرف انتقام کی آگ بجھ سکتی ہے بلکہ محبتوں کے پھول بھی کھل اٹھتے ہیں۔رمضان مبارک کی ساعت سعید کا تقاضا یہی ہے کہ ایثار اور قناعت کی خوبیوں کو فروغ دیا جاۓ۔غرور و تکبر سے معاشرتی زندگی نہ صرف متاثر ہوتی ہے بلکہ انسانیت کے بھرم پر بھی زد پڑتی ہے۔عید کے دن تو ایسا ماحول ہوتا ہے جس پر رشک آتا ہے۔سبھی لوگ مل جل کر نماز عید پڑھتے ہیں۔بچے٬جوان اور بزرگ اللہ کریم کا شکر ادا کرتے ہیں۔اس کے تناظر میں پوری ملت اسلامیہ کے لیے ایک خوبصورت پیغام ہے۔جس قدر ممکن ہو دوسروں کی عزت نفس کا خیال رہے اور دوسروں کی خوشیوں کا احساس غالب رہے۔یہ وقت تو گزر جاۓ گا اور آئندہ نصیب نہیں ہو گا۔وقت کی قدر کرنے سے زندگی کی بہاریں سلامت رہتی ہیں۔جس جذبے اور شوق سے سحری اور افطاری کا اہتمام کیا جاتا ہے اسی قدر عید کی تیاریوں میں بھی ایک جدت نظر آتی ہے۔ضرورت فقط اس بات کی ہے مہینہ بھر عبادات کے جو معمولات ہوتے ہیں ان کے مطابق زندگی بسر کرنے میں آسانی رہتی ہے۔
Leave a Reply