Today ePaper
Rahbar e Kisan International

امت مسلمہ کےلیےجذبہ اورامید کی ضرورت

Articles , Snippets , / Saturday, June 7th, 2025

rki.news

تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com

کیا جنگ لڑنے کے لیےزیادہ تعداد ہونا ضروری ہےیا زیادہ ہتھیاروں کا ہونا ضروری ہے؟اگر غور کیا جائےتو علم ہوتا ہے کہ جنگ لڑنے کے لیےنہ زیادہ ہتھیار ضروری ہیں اور نہ زیادہ تعداد،بلکہ جذبے کا ہونا ضروری ہے۔تین سوتیرہ بدر کے میدان میں جہاد کرنے پہنچےتو مخالف ان سےتعدادمیں بھی زیادہ تھے اور ہتھیار بھی ان کے پاس زیادہ تھے۔بدر میں لڑنے والوں کے پاس جذبہ تھااور امید تھی کہ ہم جیتیں گے۔یہ امیداورجذبہ ان کو اس مقام تک لے گیا کہ ان کی مدد فرشتوں کے ذریعے کی گئی اور قرآن میں بھی ان کی فضیلت بیان کر دی گئی۔اس کے علاوہ ہزاروں مثالیں ملتی ہیں جب کم تعداد اور کم ہتھیاروں کی وجہ سےکامیابیاں سمیٹی گئیں۔طارق بن زیاد کشتیاں جلا کر آگے بڑھتے ہیں اور لاکھوں سے ٹکرا جاتے ہیں۔امید اور جذبہ سلامت رہے تو لازما کامیابی ملتی ہے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا دور یاد کیجئے،جب اسلامی سلطنت کی سرحدیں پھیل رہی تھی۔،اس وقت مسلمانوں میں جہاد کا جذبہ بھی پایا جاتا تھا اور امید کی شمع بھی روشن تھی،اس لیےمسلمان کامیابیاں سمیٹتے رہے۔بے سروسامانی کی حالت میں بھی مسلمان جنگ پر تیار ہو جاتے تھے کیونکہ ان کو اچھی طرح علم تھاکہ اللہ کی مدد لازما ان کو ملے گی۔
یہ درست ہے کہ اللہ تعالی ہتھیار اور گھوڑے اکٹھے کرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ دشمنوں پر رعب رہے،لیکن لڑنے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔یہ نہیں کہ ہتھیاروں کے ڈھیرہوں اور تعداد بھی زیادہ ہو،لیکن لڑنے کا جذبہ ماند پڑ چکا ہو۔جب جذبہ ماند پڑ جاتا ہے توذلت و رسوائی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔جب لڑنے کا حوصلہ اور جذبہ نہ رہے تو غلاموں سے بھی بدتر زندگی گزارنا پڑتی ہے۔جب جہاد مصیبت نظر آنے لگے،تو پھر دوسروں کے حکم کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔جہاد کو نظر انداز کیاجائے تومار بی برداشت کرنا پڑتی ہے۔اپنی دولت دوسروں کے حوالے کرناپڑتی ہےاوردوسری ناگوار باتیں بھی برداشت کرنی پڑتی ہیں۔متحد نہ ہونا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے،اگر صفوں میں انتشار پایا جاتا ہوتو پھر بھی کامیابی نہیں ملتی۔تعداد بھلے کم ہو لیکن منافقت اور غداری نہ ہو تو کامیابی مل جاتی ہے۔اتفاق،امیداور جذبہ مل کر مسلمانوں کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔متحد ہو کردنیا کی امامت کا تاج مسلمان اپنے سر پر سجا سکتے ہیں۔جہاں بھی دیکھیے،مسلمان پس رہے ہیں۔جواسلامی ریاستیں آزاد ہیں،وہاں بھی حالات بہت ہی بدترین ہیں۔بہت سی جگہوں پر مسلمانوں کوتنگ کیا جا رہا ہے،اس کی وجہ نااتفاقی اور جذبےکی کمی ہے۔مسلمانوں کے پاس اس وقت نہ تو دولت کی کمی ہےاور نہ تعداد کی،لیکن جذبہ ناپید ہو چکا ہے۔جذبے کی کمی مسلمانوں کو ذلیل خوار کر ارہی ہے۔جب تک اپنےحق کےحصول کے لیےجذبہ بیدار نہیں ہوگااور اس کے لیےجدوجہد نہیں کی جائے گی،تب تک مقصد حاصل نہیں ہوپائے گا۔اس وقت امت مسلمہ کے پاس دولت بھی بے پناہ ہےاور تعداد بھی اتنی کم نہیں،اصل وجہ یہ ہے کیا حوصلہ،جذبہ اور امید نہ ہونے کے برابر ہے۔اگر لڑا جائےتو کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔امت مسلمہ کے فیصلےاغیار کرتے ہیں۔مسلمانوں کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ نےیہ کام کرنا ہےاور یہ کام نہیں کرنا،مسلمان غیروں کے احکام کو تسلیم بھی کر لیتے ہیں اور ان پر عمل بھی کرتے ہیں۔کتنی افسوسناک صورتحال ہے کہ ایک جگہ پر مسلمانوں پرآگ برسائی جا رہی ہوتی ہےاور پڑوس میں مسلمان رنگ رلیاں منا رہے ہوتے ہیں۔ایک جگہ پر مسلمان بھوک سے مر رہے ہوتے ہیں اور پڑوسی اسلامی ریاستیں،بھوک کے ذمہ داروں کوپروٹوکول دے رہی ہوتی ہیں۔
امید باقی رہےتو کامیابی کا امکان موجود رہتا ہےاورجب امید ٹوٹ جاتی ہے تو ناکامی حاصل ہوتی ہے۔اب بھی مسلمان کامیابیاں سمیٹ سکتے ہیں۔مسلمانوں کی دولت مسلمانوں کے خلاف ہی استعمال ہو رہی ہے۔جو دولت کے خزانے مسلمانوں کے پاس ہیں،ان خزانوں کافائدہ دوسرے اٹھا رہے ہیں۔مسلمان جدوجہد کو چھوڑ کر سخت خسارہ اٹھا رہے ہیں۔اب بھی مسلمان بیدار ہو جائیں،تو دنیا میں اپنا مقام حاصل کر سکتے ہیں۔اسلامی ریاستوں کو کہیں جدیدیت کے نام پر غلام بنایا جا رہا ہےاور کہیں قرضے دے کراپنا مطیع کیا جا رہا ہے۔اب حالت اس حدتک پہنچ چکی ہے کہ مسلمان مسلمان کا گلا کاٹ رہا ہے۔مسلمان آہس میں لڑ رہے ہیں اور ان کی لڑائیوں کا فائدہ دوسرے اٹھا رہے ہیں۔مخالفین مسلمانوں کو برباد کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں اور مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ الجھ رہے ہیں۔
مسلمان منتشر ہو کر آپس میں ٹکرا رہے ہیں۔اگر نظر دوڑائی جائے تواسلامی ریاستوں میں بے چینی نظرآ جاتی ہے۔اسلامی نظام کو چھوڑ کر دوسرے نظاموں کو اپنایا جا رہا ہے۔اگر دوسرے نظام بھی اسلامی ریاستوں میں نافذ کر دیےجاتے تو شاید امت مسلمہ کا اتنا بدتر حال نظر نہ آتا۔موجودہ دور میں جمہوری نظام کو فوقیت دی جاتی ہے،لیکن کسی اسلامی ریاست میں مکمل طور پر جمہوریت نظر نہیں آتی۔کہیں بادشاہت نظرآتی ہے اور کہیں آمریت۔اگر کہیں جمہوریت کا دعوی کیا جا رہا ہے تو حقیقت میں آمریت ہی ہوتی ہے،نام جمہوریت کا ہوتا ہے لیکن حقیقی طور پرآمریت ہوتی ہے۔قرآن کے مطابق سود اللہ اور رسول کے خلاف جنگ ہےاور قرآن و حدیث میں سود کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے لیکن سودی نظام نے امت مسلمہ کو بری طرح جکڑ رکھا ہے۔اسلامی ریاستیں آپس میں اتفاق کر کےسود اور دیگر برائیاں ختم کر سکتی ہیں اور امت مسلمہ کو ترقی کی معراج تک پہنچا سکتی ہیں۔مسلمان اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتے،جب متحد نہ ہو جائیں نیزجذبہ،حوصلہ اور امید کے ساتھ جدوجہد شروع نہ کریں۔مسلمان کم تعداد اور تھوڑے اسلحے کے ساتھ بھی جنگیں جیت سکتے ہیں۔جنگ لڑنے کے لیےزیادہ تعداد نہ بھی ہواور صرف جذبہ وامیدہوتوجنگیں جیتی جا سکتی ہیں۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International