rki.news
تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com
امریکہ اور ایران کے درمیان زبردست تناؤ پایا جا رہا ہے۔امریکہ کی کوشش یہی ہے کہ ایران جوہری قوت کو محدود کر دےاور نہ کرنے کی صورت میں خوفناک نتائج کی دھمکی بھی دے چکا ہے۔ایران کا موقف یہ ہے کہ جوہری توانائی مثبت مقاصد کے لیے ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ واضح کر چکے ہیں کہ ایران کا جوہری پروگرام کسی صورت میں قبول نہیں۔اس سلسلے میں مذاکرات بھی کیے جا رہے ہیں۔اب یہ مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں یا ناکام،ابھی تک کچھ نہیں کہا جا سکتا۔روم میں جوہری قوت کے بارے میں مذاکرات کا دوسرا دور ختم ہو چکا ہے۔ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی اور مشرق وسطی کے لیے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوٹ نےمذاکرات کیے۔ان مذاکرات میں ثالثی کا کردار عمان ادا کر رہا ہے۔روم میں ہونے والے مذاکرات کے بارے میں عمانی وزیر خارجہ بدرالبو سعیدی کے مطابق مذاکرات دوستانہ فضا میں ہوئے۔مذاکرات کے دوران ایرانی ٹیم اور امریکی ٹیم علیحدہ کمروں میں موجود تھی لیکن کچھ وقت کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ آمنے سامنے بھی بات چیت کی گئی۔تیسرا دور جو 26 اپریل کو ہونے والا ہےاور توقع کی جاری ہے کہ اس میٹنگ میں کچھ نہ کچھ واضح ہو جائے گا۔ہو سکتا ہےیہ مذاکرات فیصلہ کن ثابت ہوں،اگر فیصلہ کن ثابت نہ بھی ہوئے تو کچھ راستہ نکل سکتا ہے۔ایران سخت پابندیوں میں جکڑا ہونے کی وجہ سےبڑی مشکلات میں پھنسا ہوا ہےاور دفاعی لحاظ سے بھی کمزور ہےلیکن جوابی رد عمل دینے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔
پہلے بھی تناؤ بڑا ہوا تھا،لیکن جب ٹرمپ امریکی صدر منتخب ہوا ہےتو تناؤ میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔اب حالات اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ جنگ شروع ہو سکتی ہے۔امریکہ کی طرف سے پابندیاں لگائی گئیں،لیکن ایران مشکل میں ہونے کے باوجود بھی پابندیوں کا مقابلہ کر رہا ہے۔ایران پر لگائی گئی پابندیاں خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی پریشان کن ہیں، کیونکہ تہران پڑوسی ممالک یا کسی اور ملک کے ساتھ تجارت کرنے کے قابل نہیں رہا۔انڈیاایرانی تیل کابڑا خریدارتھا اور اپنی ضروریات کےلیےگیارہ فیصد تیل ایران سےدرآمد کرتا تھا۔زیادہ پابندیاں لگنے کی وجہ سے انڈیا نے ایران سے تیل خریدنا بند کر دیا کیونکہ انڈیا بھی ایران سےتیل خریدنے کی وجہ سے پابندیوں کی زد میں آسکتا تھا۔پاکستان اور دیگر پڑوسی ممالک بھی ایران کے ساتھ تجارت نہیں کر سکتے،کیونکہ وہ بھی پابندیوں کی زد میں آسکتے ہیں۔ماضی میں ایران کوکئی بار دھمکی دے کر مذاکرات کرنے اور ان کو قبول کرنے پر زور دیا گیا،لیکن تہران نے دھمکی قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ایران ابھی تک مضبوطی سے ڈٹا ہوا ہے کہ مذاکرات برابری کی سطح پر ہوں گے۔ایران اچھی طرح جانتا ہے کہ مذاکرات کا مقصد ہے کہ جوہری قوت کو محدود کر لیا جائے۔اب مذاکرات کاتیسرا دور کچھ دن کے بعد شروع ہونے والا ہے،ممکن ہے ایران امریکی شرائط کو تسلیم کرلے،اس صورت میں ایران پر پابندیاں ہٹائی جا سکتی ہیں۔
جو تجزیہ کار مشرق وسطی کے حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں،ان کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ جنگ بہت ہی خوفناک ہوگی۔کچھ دن پہلے پاسداران انقلاب اسلامی کے سربراہ حسین سلامی نے کہا ہے کہ ہم جنگ کے لیے تیار ہیں۔سپریم لیڈر کے قریبی مشیر علی لاریجانی نے خبردار کیا کہ اگرچہ ایران جوہری ہتھیارتیار نہیں کرنا چاہتا لیکن اس پر حملہ ہو تا ہے تو اس کے پاس ایسا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔جنگ اگر شروع ہو گئی تو دیگر ممالک بھی متاثر ہو سکتے ہیں بلکہ مشرق وسطی کا پورا خطہ شدید متاثر ہوگا۔امریکہ کے خطے میں دس فوجی اڈے ہیں اورپچاس ہزارفوجی موجود ہیں۔خفیہ طور پر بھی فوجیوں کی زیادہ تعداد موجود ہونےکاامکان ہے۔اتحادی بھی امریکہ کا ساتھ دیں گے۔جنگ چھڑنے کی صورت میں ایران کو خوفناک نقصان پہنچے گا۔ایران کو اپنی کمزور پوزیشن کا اچھی طرح احساس ہے،اگر اس کے پاس ایٹمی ٹیکنالوجی قابل استعمال موجود ہوئی تو ایٹمی ٹیکنالوجی کا استعمال بھی کر لے گا۔ایران ایٹمی قوت کا استعمال مجبوری کی حالت میں کرے گا۔دونوں فریق شکست سے بچنے اور فتح حاصل کرنے کے لیے ہر قسم کااسلحہ استعمال کر سکتے ہیں۔یہ خوفناک جنگ کافی نقصان دہ ہوگی اور انسانوں کی بڑی تعداد معدوم ہو سکتی ہے۔
امریکہ اور ایران کے مذاکرات ابھی جاری ہیں اور کس وقت تک جاری رہ سکتے ہیں،کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ مذاکرات کسی نہ کسی نتیجہ پر ضرور ختم ہوں گے۔ایران ایٹمی قوت کو محدود یا ختم کرنے پرتیار نہیں ہوگا،کیونکہ ایران سمجھ رہا ہے کہ اگر جوہری قوت کو محدود کر دیا گیا تو پھر انتہائی کمزور پوزیشن پر ایران پہنچ جائے گا۔زیادہ کمزور پوزیشن ایران کی سلامتی کے لیےبہت ہی خطرناک ہے۔ایٹمی قوت کےنہ ہونے کی وجہ سےایران کو آسانی سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایران کے پاس واقعی یورنیم اس حد تک افزودہ نہ ہو کہ وہ ایٹمی ہتھیار بنا سکے۔اگر افزودہ یورنیم موجود نہ ہوئی تو ایران بدترین شکست کا سامنا کرے گا۔امریکہ فوری طور پر ان مقامات کو نشانہ بنائے گا جہاں ایٹمی قوت کے موجود ہونے کا امکان ہے۔کسی قسم کا حملہ جوہری قوت کے لیے بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔اس بات کی امید کی جانی چاہیے کہ مذاکرات کامیاب ہوں یا ناکام، لیکن جنگ نہیں چھڑےگی۔بہرحال مشرق وسطی کاخطہ خطرناک صورتحال کا سامنا کر رہا ہےاور کسی قسم کی کشیدگی سے بڑا نقصان پہنچے گا۔
Leave a Reply