rki.news
تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com
امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان اربوں ڈالر کے معاہدے ہوئے ہیں اور ان معاہدوں میں سب سے بڑا معاہدہ اسلحہ کی خریداری کا ہے۔سعودی عرب 142 ارب ڈالرکے ہتھیار امریکہ سے خریدےگا۔کیا یہ اسلحہ سعودی عرب کی دفاعی ضروریات کو پورا کر لے گا؟ہوسکتاہےوقت ضرورت یہ اسلحہ کام نہ آسکے۔سعودی عرب معاشی لحاظ سے مضبوط ملک ہے لیکن دفاعی لحاظ سےزیادہ مضبوط نہیں۔سعودی عرب محل وقوع کے لحاظ سے بھی خطرات میں گھرا ہوا ہے۔اسرائیل قریب نہیں لیکن زیادہ دور بھی نہیں کہ سعودی عرب کونقصان نہ پہنچا سکے۔ایران اور سعودی عرب کے درمیان اختلافات اب بھی پائے جاتے ہیں،لیکن اب ان کے درمیان کچھ برف پگھلی بھی ہے۔شام میں بھی ابھی تک مکمل طور پرامن نہیں آسکا۔سعودی عرب اربوں ڈالر کا اسلحہ خرید کر اپنے آپ کو محفوظ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ جو اسلحہ سعودی عرب کو دیا جا رہا ہے کیاوہ اتنا معیاری ہے کہ اسرائیل کے ساتھ مقابلہ آسانی سے نہ سہی مشکل سے ہی کیاجاسکے؟یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ کہیں ایران کے مقابلے میں سعودی عرب کو تو نہیں تیار کیا جا رہا؟سعودی عرب فی الحال اتنا قابل نظرنہیں آتاکہ کسی ملک کے ساتھ جنگ شروع کر دے،مگر دباؤ ڈال کر سعودی عرب کو جنگ کے لیے مجبور کیا جا سکتا ہے۔سعودی عرب کے پاس پہلے بھی اسلحہ موجود ہے،مگر زیادہ اسلحہ خریدنا کوئی برائی نہیں لیکن ایسا اسلحہ خریدا جائے جوموجودہ دور کے تقاضوں کو پورا کر سکے۔ہر ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے دفاع اور سلامتی کے لیے بہترین اسلحہ خریدے۔یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جو اسلحہ خریدا جا رہا ہے،وہ مہنگا تو نہیں یاکارکردگی کے لحاظ سےکتنا مفید ہے؟ہو سکتا ہے کسی دوسرے ملک سے وہ سستے داموں مل جائے۔اگر امریکہ سے خریدنا پڑرہا ہے تو اس کے پیچھے دباؤ تو نہیں؟اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر کےکتنا فائدہ حاصل کیا جا رہا ہے؟
موجودہ دور میں جوہری توانائی کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔آج کل جس کے پاس ایٹم بم موجود ہے وہ ملک ناقابل شکست ہو جاتا ہے۔ایٹمی توانائی کم وقت میں زیادہ تباہی لاتی ہے اس لیے ایٹمی توانائی کو ہرملک حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔سعودی عرب کی بھی خواہش ہوگی کہ وہ بھی جوہری توانائی حاصل کر لے۔اسرائیل سعودی عرب کو مضبوط نہیں دیکھنا چاہتا اس لیے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ جوہری توانائی کو یہ حاصل نہ کر سکے۔اسرائیل کا ایک اور بھی مسئلہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کروانا چاہتا ہے۔کچھ ریاستیں جن میں چنداسلامی ریاستیں بھی شامل ہیں،وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں کیونکہ اسرائیل نے فلسطینیوں کی زمین کو غصب کر رکھا ہےاور فلسطینیوں کا جینا حرام کر دیا ہے۔اسرائیل کوشش کر رہا ہے کہ تمام اسلامی ریاستیں اسرائیل کو ایک قانونی ریاست کی حیثیت تسلیم کر لیں اور وہ ریاستیں بھی تسلیم کر لیں جو اسرائیل کو غاصب سمجھ رہی ہیں۔سعودی عرب پر بھی دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کر لیا جائے اور اس کے ساتھ سفارتی سمیت ہر قسم کے تعلقات بہتر بنائے جائیں۔اوباما حکومت نے جوہری معاہدے کے لیے یہ شرط رکھی تھی کہ اسرائیل کو سعودی عرب تسلیم کر لے۔ٹرمپ نے اب ایسی کوئی شرط نہیں رکھی لیکن پھر بھی جوہری توانائی کا ملنابہت ہی مشکل ہے۔سعودی عرب کی لازمی کوشش ہوگی کہ جوہری توانائی مل جائے تاکہ سعودی عرب کومحفوظ بنایا جا سکے۔
سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان صرف اسلحہ کے معاہدے نہیں ہوئے بلکہ معدنیات سمیت کئی قسم کے معاہدے ہوئے ہیں اور وہ معاہدے مستقبل میں کتنا فائدہ مند ہوں گے،قبل از وقت کچھ کہنا مشکل ہےلیکن بہت کچھ تبدیلی اسانی سے نظرآ رہی ہے۔سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کرنا امریکہ کی مجبوری سہی لیکن وہ اسلحہ سعودی عرب کو بھی دفاعی لحاظ سے مضبوط کر رہا ہے۔اس بات کا بھی امکان ہے کہ سعودی عرب کسی اور سے بھی اسلحہ خریدرہا ہو۔اسلحہ میں جدید جنگی جہاز شامل ہوں توسعودی عرب مستقبل میں بہت ہی پریشانیوں سے بچ سکتا ہے۔سعودی عرب اسلحہ کی انڈسٹریز خود بھی قائم کر سکتا ہےاور وہ اسلحہ دوسرے ممالک کو فروخت کیا جا سکتا ہے۔بہت سے بزنس مین یا ممالک اسلحہ کی انڈسٹریز سعودی عرب میں لگانے میں دلچسپی لیں گے کیونکہ سعودی عرب کا ماحول پرامن ہے۔سعودی عرب میں بنایا گیا اسلحہ پڑوسیوں کو فروخت کیا جا سکتا ہے۔سعودی عرب اتنی بڑی ڈیل کر کےبہت سے ممالک کوچونکا رہا ہے،کیونکہ مستقبل میں اس سے بھی بڑی ڈیلز ہو سکتی ہیں۔یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ وہ اسلحہ کہیں انتشار پھیلانے میں استعمال نہ ہو جائے۔بہرحال ہر ملک کا حق ہے کہ وہ اپنے دفاع کو مضبوط کرے۔کمزور ممالک آسانی سے نشانہ بن جاتے ہیں۔ڈونلڈٹرمپ اربوں ڈالر کے معاہدے کر کےامریکہ کو خوشحال کر رہے ہیں۔ٹرمپ کی پالیسیاں مستقبل میں بھی امریکہ کو مزید خوشحال بنائیں گی۔
دنیا میں اسلحہ بڑھ رہا ہےاور بد امنی میں بھی بہت اضافہ ہو رہا ہے۔ظاہر بات ہے جب ایک چیز وافر مقدار میں موجود ہو تو اس کا استعمال بھی ہوجاتا ہے۔اسلحہ کو امن کے لیے استعمال کیا جاناچاہیے، لیکن افسوس کہ اس سے دہشت گردی بڑھ رہی ہے اور اس دہشت گردی کا نشانہ مسلمان بن رہے ہیں۔فلسطین میں بہت زیادہ اسلحہ استعمال کیا جا رہا ہے جس سے انسانیت بھی سسک رہی ہے۔شام کے حالات بھی بہت ہی خوفناک ہیں،اس کے علاوہ کئی ممالک میں انسانوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔جو ممالک اسلحہ بنا کر بیچ رہے ہیں ان کا مقصد دولت کمانا ہے۔سعودی عرب اور اس جیسی ریاستیں اسلحہ خرید کر اپنے دفاع کو مضبوط بنا سکتی ہیں۔اسلحہ وہ خریداجائے جو موجودہ دور میں زیادہ مفید ہو۔
Leave a Reply