Today ePaper
Rahbar e Kisan International

امریکہ اورچین کےدرمیان برتری کامقابلہ

Articles , Snippets , / Tuesday, February 25th, 2025

امریکہ سب سے زیادہ خوفزدہ چین سے ہے،کیونکہ دنیا میں چینی ریاست اس کے مقابلےمین ڈٹی ہوئی ہے۔چین معاشی لحاظ سے بھی بہترین پوزیشن پر ہے اور دفاعی طور پر بھی مضبوط ہے۔امریکہ اپنی برتری کے زعم میں پوری دنیا میں اپنے خلاف محاذ کھول چکا ہےاور چین کی پالیسی یہی ہے کہ پرامن طریقے سےمقاصد حاصل ہوں۔چین اور امریکہ حال ہی میں مخالف نہیں ہوئے بلکہ ان کےدرمیان تعلقات میں اتار چڑھاؤ کافی پرانے ہیں۔امریکہ پوری دنیا کے لیےایک مضبوط قوت بن چکا ہےلیکن چین مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔دو صدیاں قبل کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو علم ہوتا ہے کہ 1784میں ایمپریس آف چائنا نام کا جہاز چین میں پہنچا تھا۔ساتھ ہی امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی روابط کا بھی آغاز ہوا۔تجارت میں چائے پتی،چینی مٹی اور ریشم نمایاں اشیا تھی۔1810ءمیں برطانوی تاجروں نے انڈیا سے افیون لا کر چین میں فروخت کرنا شروع کر دی اور اس سے بے تحاشہ منافع حاصل ہونا شروع ہوا۔امریکی تاجروں نے بھی فارس سےافیون لا کرچین میں بیچنا شروع کر دی۔چین میں افیون کا استعمال بے تحاشہ ہونے لگا۔1830ء میں کچھ امریکی پادری چین پہنچے۔اس دوران چین کی معیشت بہت ہی کمزور تھی۔غربت کی وجہ سے1847ء تک چینی مزدور امریکہ میں کام کرنے کے لیے جانے لگے۔اب تو بے شمار چینی نژادامریکہ میں رہائش پذیر ہیں اور کچھ سال قبل ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی،اس کے مطابق امریکہ میں 40 لاکھ سے زائد چینی رہتے ہیں۔وقت گزرتا گیا اور چین امریکہ کے درمیان کچھ معاہدے بھی ہوئے،معاہدے ٹوٹے بھی اور تعلقات بھی بنتے بگڑتے رہے۔بعض اوقات تعلقات میں بہتری بھی پیدا ہوئی۔مثال کے طور پر 1919 میں چین نے امریکہ کےکہنے پر اتحادیوں کا ساتھ دیا۔1949 میں ماوزے تنگ نےبیجنگ میں “پیپلز ریپبلک فار چائنا’کی بنیاد رکھی۔اس کے بعد تقریبا تعلقات بہتر نہ ہو سکے۔درمیان میں کچھ بہتری کےآثار نظر بھی آئےلیکن وہ پائیہ تکمیل تک نہ پہنچ سکے۔
ماوزے تنگ نےچین کو مشکلات سے نکالنے کی کوشش شروع کر دیں۔چینی معیشت تیزی سے ترقی کی طرف بڑھنا شروع ہو گئی اور 1980ء کی دہائی میں چینی معیشت کی رفتار بہت تیزی سے بڑھی۔جاپان کی معاشی رفتار بھی بہت تیز تھی،حالانکہ وہ دوسری جنگ عظیم کے دوران ایٹمی حملے کا بھی شکار ہو چکا تھا۔جاپان نوے کی دہائی میں معاشی مشکلات کا شکار ہوتاگیا۔جاپان اب امریکہ اور چین کےمقابلےمیں کمزور ہے،حالانکہ اب بھی جاپانی معیشت کا شمار بہت مضبوط معیشتوں میں ہوتا ہے۔چین 2006ء میں امریکہ کا سب سے بڑا دوسرا تجارتی پارٹنر بن گیا تھا۔اس کی بے مثال ترقی دنیا کے لیے قابل رشک بنتی گئی اور 2010 تک چین بہت بہتر پوزیشن پر پہنچ گیا۔چینی ترقی کو دیکھ کر اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ 2030ء تک چین پہلی پوزیشن پر آجائے گا۔امریکہ اسی وجہ سے پریشان ہے کہ چینی معیشت عالمی طور پر آگے بڑھ رہی ہے۔امریکہ اور چین ایک دوسرے سے سخت مقابلہ کر رہے ہیں۔امریکہ چاہتا ہے کہ چین آگے نہ بڑھے بلکہ ایک حد تک محدود رہے،لیکن چین ہر لحاظ سےآگے بڑھ رہا ہے۔چین کی ترقی دیکھ کر دنیا حیران بھی ہے کیونکہ چینی قوم کچھ دہائیاں قبل افیون کے نشے میں مست زندگی گزار رہی تھی۔اب نشے سے چھٹکارا پا کردنیا کی ایک عظیم قوم بن رہی ہے۔چینی قوم محنتی بھی ہےاور کرپشن اور ناانصافی جیسے ناسوروں سے چھٹکارا بھی پا چکی ہے۔چینی رہنماؤں نےدانشمندانہ فیصلے کر کےچین کے دفاع کو بھی مضبوط بنایا اور معیشت کو بھی درست سمت کی طرف گامزن کر دیا۔چین کی پالیسی یہی رہی ہے کہ پرامن رہا جائے،اگر کسی طرف کوئی حملہ یا چھیڑ چھاڑ ہوتی ہے تو اس کا سخت مقابلہ کیا جائے۔چین پڑوسیوں سمیت کسی کے ساتھ بھی الجھنے سے گریز کرتا ہے۔انڈیا کے ساتھ کچھ تنازعات ہوئے،لیکن معاملات بڑی جنگ کی طرف نہیں بڑھے۔پاکستان جو چین کا ایک اہم پڑوسی ہےاور دونوں ممالک کے تعلقات بہت ہی بہترین ہیں۔چین پاکستان میں بہت ہی سرمایہ کاری بھی کر چکا ہےاور اس سرمایہ کاری کا منافع دونوں ممالک حاصل کر رہے ہیں۔چین اور پاکستان کے درمیان کئی بار حالات خراب کرنے کی کوشش کی گئی اورچینی باشندوں کودہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا لیکن چین اور پاکستان کی دوستی میں دراڑ نہ آسکی،کیونکہ بیجنگ کو اچھی طرح علم ہے کہ اسلام آبادکا اس میں کوئی قصور نہیں۔چین کے مقابلے میں امریکہ کہیں نہ کہیں چھیڑ چھاڑ کرتا رہتا ہے۔امریکہ مختلف ممالک میں جنگوں پر بے تحاشہ سرمایہ خرچ کر چکا ہے۔نیٹو بھی امریکہ کے زیر کمان ہےاور 90 فیصد اخراجات امریکہ ادا کر رہا ہے۔نیٹو میں اگر امریکہ علیحدگی اختیار کرلیتا ہے تو نیٹو تحلیل بھی ہو سکتا ہے۔امریکہ اس خدشے کا بھی شکار ہے کہ چین نیٹو جیسا کوئی اتحاد نہ بنا لے۔یورپی یونین یا دوسری ریاستیں چین کی طرف رخ کر سکتی ہیں۔چین اگر امریکہ کے مقابلے میں کوئی اتحاد بنانے میں کامیاب ہو گیا تو امریکہ بدترین پوزیشن پر پہنچ جائے گا۔
امریکہ اور چین کے درمیان عالمی برتری کا مقابلہ جاری ہے۔کچھ دن قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہ چکے ہیں کہ نئی کرنسی مارکیٹ میں لا کر ڈالر کو تباہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔امریکہ ایغور مسلمانوں کا استحصال،کرونا وبا،ساؤتھ چائنا سی ،تائیوان اورکچھ دوسرے معاملات پر تنقید کرکےچین کےخلاف ایک عالمی محاذ کھول رہا ہے۔بعض رپورٹس کے مطابق ایغور مسلمانوں پر جبر کیا جا رہا ہےنیز ان کو اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے سے روکا جا رہا ہے۔چین کو انسانی حقوق کی پامالی کا خیال رکھنا چاہیے۔چین جس طرح اپنی پوزیشن کو نمایاں کر رہا ہے،اس کے لیے ضروری ہے کہ انسانی حقوق کا خاص خیال رکھا جائے۔امریکہ اور چین دونوں اپنی برتری کے لیےزبردست کوششیں کر رہے ہیں۔واشنگٹن کو اچھی طرح احساس ہے کہ چین کوآگے بڑھنے سے روکنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی مصنوعات عالمی مارکیٹ میں جگہ نہ بنا سکیں۔برکس اتحاد کو بھی چین اپنے مفاد کے لیے استعمال کر سکتا ہے اوربرکس میں شامل ممالک بھی اپنے مفاد کے لیےچین کا ساتھ دے سکتے ہیں۔
اب سوال اٹھتا ہے کہ کیا چین کے مقابلے میں امریکہ اپنی برتری برقرار رکھ سکے گا؟تاریخ کا مطالعہ کرنے سے علم ہوتا ہےکہ ماضی میں طاقت ورریاستیں معمولی معمولی غلطیوں پراپنی سلامتی کو برقرار نہ رکھ سکیں۔اپنے وقت کی سپر پاورزکمزور ریاستوں کے مقابلے میں ناکام ہو گئیں۔ان ریاستوں سےایسی غلطیاں سرزد ہوگئیں جو ان کو تباہ کرنے کا سبب بنیں۔امریکہ سے بھی ایسی غلطیاں سرزد ہو سکتی ہیں،جوناکامی کی طرف دھکیل دیں۔ممکن ہے کہ امریکہ چین کوآگے بڑھنے سے روک لے،کیونکہ بیجنگ سے بھی کچھ خطرناک غلطیاں سرزد ہو سکتی ہیں۔امریکہ اپنی برتری کو قائم رکھنے کے لیےسخت جدوجہد کر رہا ہےاور چین بھی آگے بڑھنے کے لیےسخت جدوجہد کر رہا ہے۔ان دو ریاستوں کے درمیان مقابلہ جاری ہے۔اس بات کا بھی امکان ہے کہ دونوں ریاستیں اتحاد کر لیں اور یہ اتحاد ان دونوں کی مضبوطی میں اضافہ کر دے گا۔سوال تو یہی اٹھ رہا ہے کہ کیاچین امریکہ کی جگہ لے سکتا ہے؟یہ بھی ممکن ہے کہ مستقبل میں کوئی اور ریاست عروج کی طرف بڑھنا شروع کر دے۔یقینی بات ہے کہ کئی ریاستیں آگےبڑھنے کے لیےجدوجہد کر رہی ہیں۔کروڑوں مسلمانوں کی خواہش ہےکہ وہ بھی ماضی کی طرح ترقی یافتہ بنیں۔ہو سکتا ہےکہ کوئی اسلامی ریاست پھر بلندیوں تک پہنچ جائے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International