Today ePaper
Rahbar e Kisan International

امریکہ پہلے یا امریکہ اکیلے؟

Articles , Snippets , / Sunday, April 6th, 2025

rki.news

از: انور ظہیر رہبر، برلن جرمنی

امریکی حکومت کے نئے، زیادہ ٹیرف نے عالمی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ دنیا بھر کے اہم ممالک متواتر جوابی کارروائی کا اعلان کر رہے ہیں –
کیا اسطرح ایک اقتصادی جنگ کا آغاز کردیا گیا ہے ؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا انتخاب “ فرسٹ امریکہ “ کا نعرہ لگا کر جیتا ہے ۔ اب پہلے امریکہ کے اپنے وعدے کو نبھاتے ہوئے وہ بیرون ملک سے آنے والی اشیا پر وسیع محصولات کے اعلانات پر اعلانات کررہے ہیں جس سے ماہرین کا یہ خیال ہے کہ کہیں امریکہ پہلے کے اس نعرے میں امریکہ اکیلے نہ رہ جائے کیونکہ اس اعلانات کے کچھ گھنٹوں کے بعد ہی سے امریکی تجارتی اسٹاک مارکیٹ میں نمایاں کمی واقع ہونی شروع ہوگئی ہے ۔ مثال کے طور پر دنیا کے سب سے بڑے موبائل فون بنانے والی کمپنی ایپل کے حصص کی قدر میں عارضی طور پر 6.1 فیصد ، مائیکروسافٹ کے 2 فیصد اور Nvidia کے 4.7 فیصد کی کمی واقع ہوئی۔ ایمیزون کی بھی کئی فیصد، میٹا 4.7 فیصد اور ٹیسلا 5.9 فیصد تک گر گیا۔ الفابیٹ 3 فیصد، علی بابا 3.9 فیصد اور نیٹ فلکس 2.8 فیصد گر گیا۔ چپ کی صنعت میں کمپنیاں بھی تجارت میں اپنے پارٹنر ممالک کھو بیٹھیں ہیں ۔ Qualcomm کے حصص میں 3.8 فیصد، انٹیل کے حصص میں 2.5 فیصد کی کمی ہوئی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیرف کے اعلان کے بعد سونے کی قیمت بھی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے ۔
دنیا کے بیشترممالک نے امریکہ کے اس اقدام پر اپنے سخت رویے اختیار کرتے ہوئے جوابی کارروائی کااعلان کیا تو ہے لیکن یہ جواب اُس کے برعکس ہے جو امریکہ نے وسیع محصولات لگاتے ہوئے دوسروں ملکوں پر واضح کی تھی کہ “اگر دوسرے ممالک اس پر جوابی کارروائی کریں گے تو پھر یہ کھلم کھلا ایک اعلان جنگ ہوگا اور اس سے مزید تناؤ پیدا ہوں گے ۔”
اس کے باوجود کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی نے اس اعلان کے بعد جوابی اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ “ اب ہمیں بالکل وہی کرنا ہوگا جو ہمارے خلاف کیا جارہاہے۔”
برطانیہ کے اقتصادیات کے وزیر جوناتھن رینالڈز نے اعلان کیا ہے کہ وہ “پرسکون انداز میں لیکن فیصلہ کن طور پر ردعمل ظاہر کریں گے اور امریکہ کے ساتھ ایک نیا اقتصادی معاہدہ کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ “ہمارے پاس بہت سے اوزار موجود ہیں اور ہم عمل کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔” یاد رہے کہ امریکہ نے اپنے سب سے قریبی ملک برطانیہ کے لیے صرف 10 فیصد ٹیرف ہی مقرر کیے ہیں۔
جنوبی کوریا کے قائم مقام صدر ہان ڈک سو نے امریکی محصولات سے متاثرہ کمپنیوں کی مدد کے لیے ہنگامی اقدامات کا حکم دیا ہے ۔
جرمن ایسوسی ایشن آف دی آٹو موٹیو انڈسٹری (VDA) کے صدر ہلڈگارڈ مولر نے ڈونلڈ ٹرمپ کے تازہ ترین ٹیرف کے اعلان کو تجارتی پالیسی میں ایک بنیادی تبدیلی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ” امریکہ کے یہ نئے قواعد دراصل عالمی تجارتی آرڈر سے اور اس طرح عالمی قدر کی تخلیق اور دنیا کے کئی خطوں میں اسی طرح کی ترقی اور خوشحالی کی بنیاد سے منہ موڑنا ہے۔ یہ پہلے امریکہ نہیں ہے، بلکہ یہ اکیلےامریکہ ہے۔”
مولر نے مزید کہا کہ “USA میں سب سے زیادہ اس نئے قانون سےصارفین ہی متاثر ہوں گے، جن کے لیے اضافی محصولات کے اثرات بڑھتی ہوئی افراط زر اور مصنوعات کے انتخاب میں کمی کے ذریعے براہ راست نمایاں ہوں گے۔”
امریکہ جرمنی کا بھی بہترین دوست ہونے کے باوجود جرمن گاڑیوں پر 25فیصد کے محصولات نافذ کرکے دوستی کو دشمنی کی جانب موڑ تو رہا ہے لیکن اس کے باوجود جرمنی نے بہت سنبھل کر جواب دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ ہمیں امریکہ سے جنگ نہیں کرنا ہے لیکن یہ بات صرف اقتصادی جنگ کے لیے کہی گئی ہے کیونکہ نیٹو ممالک کے ممبر ہونے کے باوجود امریکہ نے نیٹوکے لیے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے جس کے باعث یورپ کی دفاعی پالیسی بھی بُری طرح متاثر ہوئی ہے اور آج فرانس اور جرمنی نے اپنے ہتھیار بنانے کے لیے ایک مشترکہ معاہدے پر دسٹخط کرتے ہوئے یورپ کی دفاعی صلاحیت اپنے ہاتھوں میں لینے کا اعلان بھی کردیا ہے ۔ یعنی اقتصادی جنگ کے ساتھ ساتھ دفاعی جنگ کا بھی آغاز کیا جارہا ہے ۔
چین نے امریکی صدر ٹرمپ کے ٹیرف پیکج پر ردعمل ظاہرکرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے ہفتے سے تمام امریکی اشیا پر 34 فیصد اضافی ٹیرف لگا رہا ہے اس کے علاوہ امریکہ کو کئی چیزوں کی برآمد پر پابندی بھی ہوگی۔
دنیا میں اس وقت امریکہ کے روز نئے قانون کی وجہ سے ایک بھونچال سا آچکا ہے اور نہیں معلوم کہ یہ بھونچال دنیا میں اپنے کیا کیا اثرات چھوڑے گا۔ ایک بات لیکن بالکل واضح ہے کہ غریب ممالک پر بھی جو اضافی بوجھ اس نئے ٹیرف کی وجہ سے آئے گا اُس کا نتیجہ دنیا کے لیے اور اُن ممالک کے لیے کافی بھیانک ہوگا جس کا احساس ابھی فوری طور پر اُن ممالک کو نہیں ہورہا ہے لیکن مستقبل میں جب ہوگا تو پھر اُس کا علاج ڈھونڈنے میں کہیں بہت دیر نہ ہوجائے اس لیے خاص طور پر ایشیا اور افریقہ ملکوں کو ملکر کوئی نیا راستہ ڈھونڈنا ہوگا ۔ جیسا کہ یورپ نے بھی عندیہ دیا ہے کہ ہمیں نئے پارٹنر ممالک ڈھونڈنے ہوں گے ۔ یہ ایک اقتصادی دوڑ ہے اور جوصحیح وقت میں صحیح دوڑے گا جیت اُسی کی ہی ہوگی ۔ فوری طور پر اس عمل کے لیے ایک مثبت اور بہت سوچ سمجھ کر ردعمل دے کر ہی دنیا کے غریب ممالک اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں ۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International