سولہ سنگھار
سولہ سنگھار (ہندی:सोलह सिंगार) برصغیر پاک و ہند میں خواتین کے بناؤ اور زیب و زینت کے لئے استعمال ہونے والے سولہ کلاسیکی طریقے ہیں جو جدید کاسمیٹکس صنعت کے آنے سے پہلے کم و بیش ہر طبقے کی خواتین اپنی آئندہ نسلوں کی لڑکیوں کو تعلیم دیتی تھیں۔
سولہ سنگھار کے طریقوں کے آغاز اور ترویج کے زمانے کا درست اندازہ نہیں ہے تاہم اس میں بتائی گئی مختلف تکنیکیں مختلف ادوار مثلا آریائی دور اور اس سے قبل گندھارا عہد حتیٰ کہ قدیم دراوڑی دور کے مجسموں، تصاویر، ادب اور داستانوں اور آثار میں جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا آغاز برصغیر میں تہذیب کے باقاعدہ آغاز کے ساتھ ہی ہوا اور رفتہ رفتہ یہ ایک منظم نصابی شکل اختیار کر گیا۔
برصغیر میں عام طور پر ہندو خواتین، مختلف تہواروں میں یہ سنگھار اپناتی ہیں، لیکن سماجی اختلاط کی وجہ سے برصغیر کی دوسری اقوام یعنی مسلمان اور سکھ گھرانوں کی خواتین بھی یہ طریقے اپناتی رہی ہیں۔ تخت دہلی کے علاوہ ریاست اودھ کے مسلم نوابوں کی حویلیوں میں مسلمان بیگمات خاص طور پر اس کا اہتمام کرتی تھیں اور آج بھی روایت پسند گھرانوں میں اس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب، دکن، سندھ اور دیگر علاقوں میں بھی بلا امتیاز مذہب، خواتین ان کا اہتمام کرتی رہی ہیں۔
سولہ زیبائشیں
عام طور پر زبانی مآخذ میں درج ذیل سولہ زیبائشوں سے مراد سولہ سنگھار بتائے جاتے ہیں:
1. ▪ مانگ کا ٹیکا
2. ▪ مانگ میں سیندور کی دھار
3. ▪ بندیا
4. ▪ آنکھ کا کاجل
5. ▪ جھمکا یا بالی
6. ▪ ناک کی نتھنی
7. ▪ کلائی کی چوڑیاں
8. ▪ ہاتھ کی انگوٹھیاں
9. ▪ ہتھیلی اور دوسرے حصوں پر مہندی کی نقاشی
10. ▪ کمر بند
11. ▪ بازو بند
12. ▪ عطر یا خوشبو
13.▪ گجرا
14. ▪ پائل / پازیب
15. ▪ بچھیا (پیر کی انگوٹھی)
16.▪ ہار
ویدک مآخذ میں سولہ سنگھار دراصل وہ سولہ مراحل ہیں جو خواتین کے لئے کامل بناؤ اور زیبائش کا معیار ہیں۔ وہ سولہ مرحلے درج ذیل ہیں:
میردانہ
مِردانَ پہلا مرحلہ ہے جسم میں پورا جسم خوشبودار تیلوں کے ساتھ مالش کیا جاتا ہے اور خود کو باقی سنگھار کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔
منگل سنانم
دوسرے مرحلے میں تازہ پانی میں نہایا جاتا ہے۔ پہلے صابن کی جگہ دودھ، روغن بادام، گلاب کی پتیاں، خس و مرواہ اور سیتاچینی یا لودھرا کو پانی میں خاص طریقوں سے ملایا جاتا تھا۔
کیس پاش سُگندھی کرنَم
اس کے بعد بالوں پر تیل لگا کر سیکاکائی کی لئی،نگر موٹھ یا کچورا لیپ کی جاتی ہے اور بالوں کو ہریٹھے سے دھو دیا جاتا ہے۔
انگراگ وِلیپن
اس میں بطور بنیاد یا “فاؤنڈیشن” چہرے، گردن، شانوں اور بازوؤں پر صندل کے باریک سفوف کی لئی کا لیپ کیا جاتا ہے۔
کاجل ریکھا دیپن
اس کے بعد آنکھوں میں کاجل یا سرمے کے ساتھ دھاریاں کھینچی جاتی ہیں۔
تلک پرسادھنَ
پھر ماتھے پر سرخ سیندور یا طلائی نشان سے بندیا یا منگلیہ چھنہا کھینچا جاتا ہے۔
مکھ پرسادھن
اس سے چہرے پر جڑی بوٹیوں سے کشید کیے گئے رنگوں، سونے، چاندی اور قیمتی موتیوں سے بنے جڑاؤ نشان چہرے پر منقش انداز میں بنائے جاتے ہیں۔ اس کے بارے میں عام خیال کیا جاتا تھا کہ یہ بری نظر سے بچاتے ہیں۔
کیس پاش رچنا
میں بالوں کو لٹوں اور جوڑے کے انداز سے مختلف طرز اور اسٹائل دیے جاتے ہیں۔
الکتَ پش رچنا
ہونٹوں کو مختلف طرح سے بنی سرخی کے ساتھ رنگنے کا عمل ہے۔
ہست سوشو بھیتم
میں ہاتھوں کو صاف کر کے زیورات اور حنائی رنگوں سے سنوارنا اور آراستہ کرنے کا مرحلہ ہے۔
پاد سوشو بھیتم
اس مرحلے میں پیروں کو صاف کر کے الیتا اور حنا کے ساتھ سنوارا جاتا ہے اور پیر کی انگلیوں میں بچھیائیں پہنی جاتی ہیں۔
مہا وسترا پریدھنم
خاتون سنگھار کے بعد درپن وکولن کرتے ہوئے، مصوری گوربھ گوسوامی
اس مرحلے میں پورے اہتمام اور آداب سے عروسی کا جوڑا یا متعلقہ تہوار کا لباس زیب تن کیا جاتا ہے۔
پوشپ دھرنم
اس کے بعد چنبیلی یا موتیے کے گجرے گردن، جوڑے اور کلائی کے گرد پہنے جاتے ہیں۔
النکار دھرنم
اس مرحلے پر اپنے تمام طلائی، سیمیں اور دیگر زیورات کو مخصوص جگہوں پر آراستہ کیا جاتا ہے۔
تمبُل سیوَنم
سانسوں، منہ اور دانتوں کو خوشگوار احساس دینے کے لیے پان، مساگ، الائچی یا تمبولم چبایا جاتا ہے۔
درپن وِکولن
آخر پر آئینے کے سامنے آ کر تمام سنگھار کو ایک بار پھر سر تا پا دیکھا جاتا ہے اور ایک ایک چیز کی پڑتال کی جاتی ہے، چھوٹ گئے سنگھار دوبارہ کیے جاتے ہیں اور غلطیوں کو درست کیا جاتا ہے۔
سترہواں سنگھار
اوپر بیان کیے گئے سنگھار چونکہ زیادہ تر شادی بیاہ کے مواقع پر ہی پورے کئے جاتے رہے ہیں، اس لئے اس سب کے بعد دولھن کو سہاگ کی سیج پر لایا جاتا ہے اور تمام سنگھار گھونگھٹ اٹھائے جانے کے بعد اپنے منطقی انجام کو پہنچتا ہے۔ اس مرحلے کو “شُبھ درشٹی” کہتے ہیں۔
ہند و پاک ادب اور سولہ سنگھار
نسوانی حسن کا نقطۂ آخر سمجھا جانے کی وجہ سے سولہ سنگھار نے شروع ہی سے شاعروں، مصوروں اور گیت نگاروں کا دل موہا ہے۔ قدیم ہندی اور سنسکرت ادب سے لے کر معاصر اردو ادب تک جگہ جگہ اس کی تعریف اور تذکرہ ملتا ہے۔ ممتاز اردو شاعرہ پروین شاکر کے لکھے گئے اس گیت کو مشہور گلوکارہ بلقیس خانم نے ٹھمری کے انداز میں گایا ہے جس میں اس کے مختلف اجزاء کا ذکر کیا گیا ہے:
بال بال موتی چمکائے، لوم لوم مہکار
گوری کرت سنگھار
مانگ سیندور کی سندرتا سے چمکے چندرنہار
جوڑے میں جوہی کی بیلی، بانہہ میں ہار سنگھار
گوری کرت سنگھار
کان میں جگمگ بالی پتی، گلے میں جگنو ہار
صندل ایسی پیشانی پر بندیا لائی بہار
گوری کرت سنگھار
سبز کٹارا سی آنکھوں میں کجرے کی دو دھار
گالوں کی سرخی سے جھلکے ہردے کا اقرار
گوری کرت سنگھار
Leave a Reply