Today ePaper
Rahbar e Kisan International

انتہاے بد نصیبی

Articles , Snippets , / Monday, July 14th, 2025

rki.news

تحریر. ڈاکٹر پونم نورین
کبھی غور فرمائیے گا کہ دنیا کے اس خوبصورت میلے میں جہاں صبح سے شام اور شام سے رات تک تمام لوگ موج مستیاں کرتے پھرتے ہیں، ہنستے گاتے پھرتے ہیں، طرح طرح کے ذایقے اور کھانے ڈھونڈ ڈھونڈ کے اپنے ذائقوں کے مزے کو دوبالا کرتے رہتے ہیں، سردیوں میں حلوہ جات، ڈرای فروٹس اور چاے کافی تو گرمیوں میں مشروبات، آیس کرییمز، فالودے، برف کے رنگ برنگے گولے، ملک شیکس، بادام والے دودھ، سرداییاں، میٹھی، نمکین لسیاں، روح افزا اور ذایقوں کے مزے اڑاتے ہوے انسان، تھکے ہارے، آبلہ پا، شکستہ حال، اورسارے ہی چند پل سکون کے ڈھونڈتے ہوے، ہم سارے ہی اپنے اپنے سکھ کو تلاشنے میں لگے رہتے ہیں، اب سکھ کتنا اور کب تک ملنا ہے یہ سب نصیب کی بات ہے اور نصیب اس مالک کے ہاتھ میں ہے جس کے قبضے میں ہم سب کی جان ہے، خیر آغوش سے قبر کی پناہ تک بے شمار پڑاو آتے ہیں جہاں ہم سانس لینے کے لیے، دم لینے کے لیے، سستانے کے لیے کچھ دیر ٹھہرتے ہیں، اپنی سانسیں درست کرتے ہیں اور دوبارہ سے تازہ دم ہو کر اگلے پڑاو کی طرف رخ کر لیتے ہیں، دنیا سراے اور چل چلاو کا میلہ ہے، یہاں کوی بھی مستقل قیام نہ ہی کر سکتا ہے اور نہ کرنے کے بارے میں سوچ سکتا ہے، ہاں ہم خواب بننے کے فن میں بڑے طاق ہیں ہم خوابوں کی راجدھانی میں میں رنگ بھرنے کے فن میں بھی خوب ماہر ہیں اور کبھی کبھی ہم اپنے خوابوں میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے اپنی آنکھوں کو زخمی اور پیروں کو لہو لہان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے گویا خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے ہم کسی بھی حد تک بے جھجھک چلے جاتے ہیں.
خواب دیکھے ہیں تو قیمت بھی چکای ہے ناں
خواب ہم جیسوں کو رستے سے ہٹا دیتے ہیں
تو حمیرہ اصغر ایسی ہی ایک بدبخت بیٹی تھی جو ایک متوسط طبقے میں پیدا تو ہوی مگر اس کی آنکھوں میں بسے خوابوں نے اسے کہیں کا نہ چھوڑا، وہ نمازی والدین کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی اللہ جانے کس خواب نگر کی دلدل میں جا پھنسی کہ نہ اسے اپنے تہجد گزار باپ کے واویلے سنای دیے نہ نمازن ماں کی آہ و فغاں کہ حمیرہ نہ چلو اس راہ بدنامی و بے حیائی پہ یہ ہم لوگوں کا رستہ نہیں ہے، مگر اس بانولی کو کسی نے یہ بتا دیا تھا کہ زندگی ایک ہی بار ملتی ہے لہذا اسے اپنی مرضی سے ہی گزارنا چاہیئے اور یہی اس کی سب سے بڑی بھول تھی اس نے اپنے پیاروں اپنے خونی رشتوں کو دنیاوی ترقی کے لیے بے دردی سے ٹھوکر ماری، محبت کی پناہوں کو جھٹک دیا اور ایک ایسے جھوٹ کے جہان میں داخل ہو گءی جہاں انسان کا سایا بھی اپنا نہیں ہوتا اور اس چند روزہ چکا چوند، جھوٹی شہرت اور چند روپوں کے عوض اس بد نصیب، حرماں نصیب نے تنہائی کا جوگ اپنے سر لے لیا، لوگوں نے اسے استعمال کیا، اور جب چند دن کی چاندنی ملیا میٹ ہو گءی نوبت فاقوں تک پہنچ گءی، چڑیاں کھیت چگ کے اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ گییں، اور حمیرہ جی کءی ماہ کے فاقوں کے بعد لاوارث ہو کے کراے کے فلیٹ میں جان کی بازی ہار گییں اور مالک مکان کرائے کی عدم دستیابی پہ بیلف لے آیا تو پتا چلا آزادی کی خواہاں ماڈل کءی ماہ. پہلے ہی زندگی کی قید سے رہائی پا چکی ہے اور اس کا مردہ جسم decomposing کے آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے، مرنے والی اپنے حصے کی خوشیاں، غم اور تنہائیاں سمیٹ کر زندگی کی بازی ہار گءی مگر میڈیا والوں اور اہل دنیا نے اس بدبخت کے مرنے کو بھی ایک ڈرامہ ہی بنا دیا اللہ پاک اس کے درجات بلند کرے اور اہل دنیا کو ہدایت دے کہ کسی کی بھی بیٹی اور ایسی بیٹی جو اس دنیا سے جا چکی ہے کو اس طرح نشانہ عبرت نہ بنائیں خدارا رحم کیا جائے.
حمیرا اصغر
وہ جا چکی ہے اس زمانے سے
ہے کسی اور ہی ٹھکانے میں
اور تضحیک اب گوارا نہیں
درد اب ختم ہو دوبارہ نہیں
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Punnam. naureen1@cloud.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International