تازہ ترین / Latest
  Tuesday, March 11th 2025
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

انسان کو سانس تو لینے دو ناں

Articles , Snippets , / Tuesday, March 11th, 2025

انسان کو سانس تو لینے دو ناں.
پہلے انسان کو تو جینے دو
حق حوا کی بات پھر کرنا
کتنی بے چینیوں کے عالم میں
منصفی روگ بنی پھرتی ہے
حسد کی سلطنت ہے چاروں سمت
بے کسی سوگ بنی پھرتی ہے
بھوک نے بے طرح ستایا ہے
نہ ہی اپنا ہے نہ پرایا ہے
نفسا نفسی کی قید میں جکڑا
نہ سمجھ پایا کہ سب مایا ہے
تیری دنیا میں اے میرے مولا
لوگوں نے کیسا ستم ڈھایا ہے
کچھ کے گھر کھانے کو ہیرے موتی
کچھ کے گھر دانہ بھی نہ آیا ہے
ہاے اتنا غضب میرے مولیٰ
کتنی تذلیل ہے یہ انساں کی
کتنا لوگوں نے قہر کمایا ہے
بس نہ سمجھے کہ یہ سب مایا ہے.
یہی رونا تھا کہ نہ انصاف تھا اور نہ صبر، دینے والے نے تو من و سلویٰ تک اتارا، لینے والوں کو لینے کا سلیقہ ہی نہ آیا. نہ انھوں نے حضرت عیسٰی کی تعلیمات پہ کان دھرے، نہ حضرت عیسٰی کی تقاریر پر نہ انھیں مواخات کی وہ جیتی جاگتی تصویر یاد رہی جو حضرت محمد صل اللہ علیہ والہ سلام نے مکہ سے مدینہ کے موقع پر انصاری اور مہاجرین میں قایم کی جو اس بات کی عملی تفسیر تھی کہ مل بانٹ کے کھانے سے رزق میں برکت کا عنصر بھی شامل ہو جاتا ہے.
غور فرمائیے گا وہ گھرانے جو اپنے رزق میں وراثت کے علاوہ بھی اپنی بہن، بیٹیوں کا حصہ باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں ان کے دسترخوان اور رہن سہن کی شان ہی کچھ اور ہوتی ہے، آزما کے دیکھ لیجیے گا، ہاں وہ گھرانے جو گھر کی بیٹیوں کو دھتکارتے ہیں ان کی وراثت نگل جاتے ہیں ان پہ فضول قسم کی پابندیاں عاید کر دیتے ہیں، وہ جو رشتہ داریوں کو توڑتے ہیں، محبتوں میں رخنہ اندازی جیسے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں ان کی کبھی پوری نہیں پڑتی وہ آسمان سے گرتے ہیں تو کھجور میں اٹک جاتے ہیں. اللہ کو عبادت کے لیے فرشتے بہت تھے ہمیں اس چند روزہ، عیش و عشرت سے سجی ہوی دنیا میں بھیجنے کا مقصد اس چیز کا امتحان تھا کہ کون اپنے نفس پہ قابو پا کر صبر کی اوڑھنی کو اوڑھ کر اس عیش و عشرت کی کانٹوں بھری راہ گزار سے ہنستے مسکراتے تمام لوگوں کے حقوق ادا کرتا ہوا روح مطمئنہ کے ساتھ خالی ہاتھ اور نیکیوں کے پلندے کے ساتھ لوٹ آتا ہے، تو یقین مانیے ایسے لوگ کم ہی ہوں گے جو دوسروں کے دکھ درد دور کرتے ہوئے اپنے آپ کو توبھول ہی جاتے ہیں یہی ہیں انسانیت کا فخر، انسانیت کا مان، یہ کبھی رسول عربی ہوں گے جو اہل طایف سے پتھر کھا کے بھی انھیں دعا دیتے رہے کبھی نیپال کے مہاتما بدھ ہوں گے جو تخت شاہی کو ٹھکرا کر جنگلوں میں بن باس کاٹیں گے، کبھی حسین ابن علی ہوں گے جن کے لیے سواے اپنے نانا کے دین کو بچانے اور اللہ پاک کی واحدنیت کے آگے سر کٹوانے کے کوی دوسرا مقصد ہو گا ہی نہیں، ایسی بزرگ اور نابغہ روزگار ہستیاں اس دنیا میں انسان کے مختصر قیام اور مقصد حیات سے بخوبی آگاہ تھیں انھیں اس حقیقت کا ادراک تھا کہ ہم سب انسان ایک امتحانی پرچے کو حل کرنے کے لیے اس دنیا میں بھیجے گیے ہیں لہٰذا نہ انھوں نے مال و زر اکٹھے کیے نہ مسند شہنشاہی کو اپنے لیے پسند کیا وہ درویشوں کے دیس سے تھے وہ فاقے کے بھیس میں تھے، ان پہ تنگ تھی زندگی کی ادا
پر کر نہ پاے نمازیں قضا
ان پہ لازم تھا بچوں سے پیار
اور احترام بزرگ تھا ان کا قرار
مگر دیکھیے پھر انسانیت کے جنازے کیسے اٹھے نااہل تخت نشین ہوے، انصاف کا گلا گھونٹ دیا گیا، میرٹ کا سر عام قتل کیا گیا، اور جھوٹی شان و شوکت اور نمود و نمایش نے ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا اور نااہل حکمران اپنی کوتاہیاں چھپانے کے لیے اہل علم پہ پھنکارتے رہے. دل خون کے آنسو رونے لگا جب اس طرح کے تماشے چہار سو دیکھے اور بے شمار دیکھے جب سارے ہی جوان جن کے عشق کرنے کے دن تھے غیر ملکی ایجنسیوں کے باہر ویزے کے حصول کے لیے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہو گیے اور سارے ہی ایک مخصوص قبیلے کے بوڑھے پنشنیں لینے کے باوجود بھی لاکھوں روپے تنخواہوں والی مراعات والی سیٹوں پر ریٹائر ہونے سے بھی پہلے براجمان ہو جاتے ہیں تو آگءی نہ ملکی دولت صرف چند ہاتھوں میں ہو گیا ناں اہلیت کا قتل تو پھر لوگ بھوکے تو مریں گے ناں، ایکدوسرے پہ حملہ آور تو ہوں گے ناں، نفسانفسی تو بڑھ جاے گی ناں،
خون کے آنسو
یہ سنتے آئے تھے اکثر
دل خون کے آنسو روتا ہے
پر
آج سمجھ میں آیا ہے
کیا خون کے آنسو کا مطلب
تو سڑکوں پہ بے یارو مددگار پڑے ہوے نشیوں کو دیکھ کے رویں یا نوکری کی تلاش میں یہاں سے وہاں دھکے کھاتے ہوے نوجوانوں کو، اپنے اوپر مسلط خواہ مخواہ کے قبضہ مافیا کو دیکھ کر روءیں یا بھوک سے کلپلاتی ہوی سڑکوں پہ بھیک مانگتی ہوی بھکاری عورتوں کو دیکھ کر اپنے بربادی کے نوحے پڑھیں. تو اس یوم خواتین پہ مجھے عورتوں کے حقوق کی بات نہیں کرنی ہے وہ بکارے مارنے کے لیے اللہ پاک کے فضل و کرم سے ایک جتھہ عظیم تیار کر دیا گیا ہے، جوکبھی عورت مارچ اور کبھی میرا جسم میری مرضی کے نعرے لگاتا رہے گا، مجھے تو ساری دنیا کے غاصبین سے صرف یہ کہنا ہے کہ خدارا عورتوں سے پہلے انسان کو تو اس کے انسان ہونے کے تمام حقوق یعنی روٹی کپڑا مکان، مناسب تعلیم، مناسب روزگار، علاج معالجے کی سہولیات تو دو. للہ جب مزدوروں کی پھل فروٹ والی ریڑھیاں میونسپل کمیٹی والے فرعونوں کی مانند چھین کر کے جاتے ہیں تو کیا ان مزدوروں کے بھوکے پیٹ والے بچے اس رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں حکمرانوں کو دعائیں دیتے ہوں گے؟؟
ڈر غریبوں کی آہ سے حاکم
آہ تو موت بری ہوتی ہے
تو اس یوم خواتین پہ اتنا ہی کہ عورت سے جنم لینے والے انسانوں کو تو پہلے حقوق دیجیے، عورت کے حقوق کی بات کرنے والی ہٹیاں خوب چل رہی ہے.
حق انساں کی بات کرتے ہیں
جو بھر دے پیٹ کسی بھوکے کا
کپڑے اور مکاں کی بات کرتے ہیں
جہاں لوگوں کو لوگ ہوں پیارے
آج اسی جہاں کی بات کرتے ہیں
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendrpunnam@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International