rki.news
تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com
سیکولر ہونے کی دعویدار انڈین گورنمنٹ تمام اقلیتوں خصوصا مسلمانوں کو دبانے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔صرف اقلیتوں کو نہیں تنگ کیا جاتا بلکہ چھوٹی ذات کے ہندوؤں کو بھی پریشان کیا جاتا ہے۔نام نہاد سیکولر گورنمنٹ کے زیر تحت مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔تشدد بعض اوقات بڑھ کر جان لیوا ثابت ہوتا ہے اور کئی مسلمان شہید ہو جاتے ہیں۔مسلمانوں کواپنے بنیادی حقوق حاصل کرنے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔فرقہ پرست ہندو مسلمانوں پر کبھی کوئی الزام لگا کر اور کبھی بغیر الزام کی ہی تشدد کرتے رہتے ہیں۔کتنی افسوسناک صورت حال ہےکہ گائےکو ذبح کرنے کے جرم میں زندہ مسلمانوں کو جلا دیا جاتا ہےیاتشدد کے دیگر ذریعے اختیار کر کے قتل کر دیے جاتے ہیں۔مساجد کو شہید بھی کیا جا چکا ہےاور مزید مساجد کو گرانے کی منصوبہ بندیاں بھی کی جا رہی ہیں۔مقدس مقامات بھی خطرے میں ہیں۔اب ایک اور بل منظور ہو چکا ہےاور یہ بل مسلمانوں کے لیے بہت ہی خطرناک ثابت ہوگا۔یہ بل انڈیا کی لوک سبھااور راجیہ سبھا سے بھی منظور ہو گیا ہے۔اس بل نے انڈین مسلمانوں کی پریشانیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔اس بل کا نام یونائٹڈ وقف منیجمنٹ ایمپاورمنٹ،ایفیشنسی اینڈ ڈویلپمنٹ ایکٹ 1995 ہے۔یہ نیا بل 1995 کےوقف ایکٹ میں ترمیم کے لیےلایا گیا ہے۔اس بل کے ذریعےمسلمانوں کی کھربوں روپے کی جائیدادیں باآسانی چھینی جا سکتی ہیں۔نئے بل کے مطابق وہ شخص زمین عطیہ کر سکتا ہے جو مسلسل پانچ سال تک مسلمان رہا ہواور عطیہ کی جانے والی جائیداد اس کی اپنی ملکیت ہو۔لازمی بات ہے اللہ کے نام پر مسلمان ہی عطیہ کرے گا۔ویسےمسلمان یا کسی اور مذہب کا پیروکار،اپنی زمین جائیداد یا کوئی چیز خیرات کر سکتا ہے۔اس بات کی بھی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں کہ وہ اپنی ہی چیز عطیہ کرے گا کسی اور کی چیز کو کیوں عطیہ کرے گا؟بل پاس ہو گیا ہے اب آئین کا بہانہ بنا کر مسلمانوں کی جائیدادیں چھین لی جائیں گی۔پہلے بھی مسلمان بڑی مصیبتیں جھیل رہے ہیں اور اس بل کے بعد ان کی تکلیفوں میں اضافہ ہو جائے گا۔
یہ وقف بل پاس ہو گیا ہے اور اس سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ نام نہاد سیکولر گورنمنٹ مسلمانوں کی پریشانیوں میں اضافہ کر رہی ہے۔نئے بل کے ذریعے سروے کا حق وقف کمشنر کی بجائے کلکٹر کو دے دیا گیا ہے۔تمام مسلم تنظیموں اور اپوزیشن کی طرف سےاس بل پر تنقید کی جا رہی ہے۔تنقیداوراعتراضات کے باوجود بھی لوک سبھا میں یہ بل پاس ہو گیا ہے۔اپوزیشن نے اس بل کو غیر آینی قرار دے دیا ہے۔یہ وقف بل غیرآئینی بھی ہے کیونکہ اس میں مسلمانوں کے حقوق متاثر ہو رہے ہیں.مودی گورنمنٹ ہمیشہ مسلم دشمن رہی ہے۔قائد حزب اختلاف راہول گاندھی نے سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر لکھا”یہ آئین پر حملہ ہے۔آج مسلمان نشانے پر ہیں،کل کوئی اور برادری نشانہ بن سکتی ہے”لازمی بات ہے مسلمانوں کی جائیدادوں کو اگر چھینا جا سکتا ہے تو کل دوسرے مذاہب کے پیروکاربھی ان کا نشانہ بن سکتے ہیں۔کئی مسلم تنظیمیں اس نئے ترمیم شدہ قانون کو چیلنج کرنے کی حکمت عملی بنا رہی ہیں۔مسلم تنظیموں اور اپوزیشن کی جانب سےاس بل پر کافی عرصے سے تنقید ہو رہی تھی،لیکن پھر بھی بل پاس ہو گیا ہے۔مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں میں بھی تشویش بڑھ رہی ہے کہ ان کے خلاف بھی کوئی اس قسم کا قانون پاس کیاجا سکتا ہے۔اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی نے یہ بھی کہا ہے کہ اس وقف ترمیمی بل کا مقصد مسلمانوں کو پسماندہ کرنا اور ان کی جائیدادوں کے حقوق کو غصب کرنا ہے۔مسلمان سیاست دان رہنما اسد اویسی نے بل کی کاپی کو پھاڑ دیاتھا،کیونکہ وہ صرف یہی کر سکتےتھے اور اس کے علاوہ کچھ اورکرنے سے قاصرتھے۔وقف بل انڈین آئین کی آرٹیکل 25 اور 26 کی خلاف ورزی ہے اور مسلمانوں کے ساتھ نا انصافی بھی ہے۔اس بل میں غیر مسلم کو وقف بورڈ کا چیف ایگزیکٹو آفیسر بنانے، ریاستی حکومتوں کو اپنے وقف بورڈ میں کم از کم دو غیر مسلم اراکین شامل کرنے اور ضلعی کلکٹر کو متنازعہ جائیدادوں پر فیصلہ دینے کا اختیار شامل ہے۔اس بل کے ذریعے مسلمانوں کی جائیدادیں آسانی سے چھینی جا سکیں گی۔کسی بھی جائیداد کو متنازعہ بنا کر مسلمانوں سےبھی چھینا جا سکتا ہے۔
مسلمان اللہ کی رضا کے لیے فلاحی کاموں کے لیے جائیداد یا نقد کیش وغیرہ کی صورت میں خیرات کرتے ہیں۔اسلامی تعلیمات کے مطابق خیرات کرنا ایک احسن عمل ہے۔انڈیا میں مسلمانوں نے کافی جائیدادیں خیرات کر رکھی ہیں۔قبرستان،مساجد،امام بارگاہوں اور مقابرکے لیےصدیوں سے مسلمانوں نےقیمتی زمین عطیہ کر رکھی ہیں۔کئی جائیدادوں کی تو قانونی دستاویزات بھی موجود نہیں ہیں۔اب ان جائیدادوں کو متنازعہ بنا کر غیر مسلم اراکین سے فیصلہ کروا کر ان قیمتی جائیدادوں کو غصب کیا جا سکے گا۔یہ زمینیں لاکھوں ایکڑ پر پھیلی ہوئی ہیں۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تقریبا۔4۔9لاکھ ایکڑ زمین وقف کے پاس موجود ہے۔لاکھوں ایکڑ زمین مسلمانوں سے چھینی جا سکتی ہے۔مسلمان جو بعدمیں زمین عطیہ کریں گےتو عطیہ شدہ زمین کو بھی چھینا جا سکے گا۔اس بل کے ذریعے مدارس اور تعلیمی درس گاہوں کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔دیگر غیر مسلم اقلیتوں کو بھی مسلمانوں کا ساتھ دینا چاہیے،کیونکہ ان کے ساتھ بھی ایسا غیر منصفانہ عمل ہو سکتا ہے۔حکومت کا یہ دعوی کہ یہ بل بہتری کے لیےہے،اس میں کچھ حقیقت نہیں۔بابری مسجد کو بھی اس لیے شہید کر دیا گیا تھا کہ انتہا پسند ہندوؤں نےجھوٹا دعوی کیا تھا کہ یہاں پہلے رام مندر تھا۔اب اس طرح جھوٹے دعوے کر کےمسلمانوں کی جائیدادیں غصب کی جا سکیں گی۔حکومت نے ایسا کوئی قانون پاس نہیں کیا جسے ہندوؤں کو تھوڑی سی بھی زک پہنچے۔مندروں میں بھی ٹنوں کے حساب سےسونا موجود ہے،صرف سونا ہی نہیں دیگر قیمتی دھاتوں کے علاوہ قیمتی زمینیں بھی موجود ہیں،لیکن ان کو چھیڑا نہیں جا رہا۔ایک مسلم رہنماکلب جواد کے مطابق مسلمانوں کی وقف کی گئیں املاک ناقابل فروخت ہیں۔اگر مندروں میں جمع سونا نکال کرحکومت اپنے پاس ریزروبینک میں رکھ لے تو انڈین کرنسی ڈالر کے مساوی ہو سکتی ہے۔وقف بل تو آئینی طور پر منظور کیا جا چکا ہے،انتہا پسند ہندو بغیرآئین اور قانون کے بھی مسلمانوں کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔بین الاقوامی برادری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کانوٹس لےاور انڈیا پر دباؤ ڈالا جائے کہ مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کےمذہبی حقوق کا خیال رکھے۔ایسے قانون کو منسوخ ہو جانا چاہیے جو مذہبی آزادی کے خلاف ہو۔
Leave a Reply