Today ePaper
Rahbar e Kisan International

انڈین وزیر خارجہ کےدورہ چین کاجائیزہ

Articles , Snippets , / Monday, July 21st, 2025

rki.news

تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com

انڈین وزیر خارجہ کےدورہ چین کاجائیزہ
چین اور انڈیا کے درمیان مختلف قسم کے تنازعات پائے جاتے ہیں۔ان تنازعات کی وجہ سےانڈیا اور چین کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔گزشتہ ہفتےانڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نےچین کا دورہ کیااور یہ دورہ پانچ سال کے بعد ہوا۔ایس جےشنکرنے چینی صدر شی جن پنگ سمیت اعلی حکام سے ملاقات کی ہے۔پہلے بھی تعلقات خراب تھے لیکن 2020 میں بالکل منقطع ہو گئے تھے۔انڈین وزیر خارجہ کا یہ دورہ کافی حلقوں میں زیر بحث ہے۔انڈیا کے پاکستان سمیت تمام پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔چین کے ساتھ بھی کئی جھڑپیں ہو چکی ہیں۔انڈین وزیر خارجہ کا دورہ شاید تعلقات بحالی کی ابتدائی کڑی ہو۔گزشتہ سال اکتوبر میں روس میں برکس اجلاس کے دوران چینی صدر شی جن پنگ اور انڈین وزیراعظم نریندرا مودی کےدرمیان ایک ملاقات بھی ہوئی تھی۔اب مودی اورشی کی ملاقات کتنی فائدہ مند تھی کچھ نہیں کہا جا سکتا،لیکن اس ملاقات کی اہمیت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔حالیہ سال کے جون میں انڈیا کی قومی سلامتی کےمشیر اجیت ڈوول اور وزیر دفاع راج ناتھ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے بیجنگ بھی گئے تھے۔یہ واضح ہے کہ چین کی برتری سے انڈیا خائف ہے۔چین عسکری اور معاشی لحاظ سے بہت مضبوط ہو چکا ہے،بلکہ اپنی اہمیت عالمی طور پر منوا رہا ہے۔بھارت چین کا مقابلہ آسانی سے نہیں کر سکتا۔تعلقات بہتر بنانے کے لیےانڈیا کوکافی وقت لگے گا۔
جے ایس شنکر کا دورہ انڈیا میں جہاں بہتر اقدام کہا جا رہا ہے وہاں اپوزیشن کی طرف سے تنقید بھی کی جا رہی ہے۔اپوزیشن کی طرف کہا جا رہا ہے کہ چین مخالف ملک ہے،وہاں کا دورہ کرنا کیوں ضروری تھا؟علاوہ ازیں پاکستان کے چین کے ساتھ انتہائی دوستانہ تعلقات ہیں اور یہ تعلقات انڈیا کے لیے ناقابل برداشت ہیں،اس لیےوزیر خارجہ کایہ دورہ تنقید کی زد میں ہے۔انڈیا امریکہ کی طرح اپنی برتری منوانا چاہتا ہے،حالانکہ انڈیا کے بے شمار مسائل ہیں اور ان میں بہت ہی پھنسا ہوا ہے۔ان مسائل نےانڈیا کی سلامتی کو بھی خطرے سے دو چار کر دیا ہے۔انڈین گورنمنٹ کوایسی پالیسیاں بنانی ہوں گی جس سے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات بہتر رہیں ورنہ انڈیا خود بھی ختم ہو سکتا ہے۔انڈیا اور چین کے درمیان سرحدی تنازع بھی بہت پرانا ہے۔3 ہزار کلومیٹر لمبی سرحد کی وجہ سےانڈیا اور چین کے درمیان کئی دفعہ جھڑپیں بھی ہو چکی ہیں۔سرحدی تنازع کے علاوہ دیگر تنازعات بھی بہت ہی بڑھے ہوئے ہیں۔تجارتی مسائل کے علاوہ دیگر مسائل نے بھی ان دو ممالک کے درمیان کافی فاصلے پیدا کیے ہوئے ہیں۔تبت کے مسئلہ پر انڈین مداخلت،چین کے لیے ناقابل برداشت ہے۔پاکستان سے قربت بھی انڈیا کو کھٹکتی ہے،حالانکہ پاکستان اور چین پرامن طریقے سےتعلقات نبھا رہے ہیں۔امریکہ چین کامخالف ہے اور انڈیا کے امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر ہیں،انڈیا امریکی دباؤ پر بھی چین کی مخالفت کر رہا ہے۔دیگر مسائل بھی موجود ہیں،جو انڈیا اور چین کے درمیان مخالفت کی وجہ بنےہوئے ہیں۔
برکس کے چین اور انڈیا دونوں رکن ہیں،لیکن ان دو ممالک کے درمیان تعلقات بھی خراب ہیں۔اب جے ایس شنکر کے دورے کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ کیا وہ علامتی دورہ تھا یا کوئی مقاصدبھی پوشیدہ تھے۔کسی بھی ملک کی سینئر شخصیات کا دورہ معمولی نہیں ہوتا،بلکہ بہت سے مفادات کے پیش نظر کیا جاتا ہے۔بعض کے نزدیک شاید یہ علامتی دورہ ہو،لیکن بہت سے تجزیہ کاروں کے نزدیک اس دورہ کی اہمیت بہت زیادہ ہوگی۔پاکستان بھی اس دورے کوشاید زیادہ اہمیت نہ دے،لیکن امریکہ اس دورے کو اہمیت دے گا۔امریکہ نہیں چاہے گا کہ چین اتنا مضبوط ہو جائےکہ اس کو چیلنج کرنا مشکل ہو جائے۔اس بات کاامکان موجود ہے کہ چین اور انڈیا کے درمیان تجارتی تعلقات بہتر ہو جائیں۔تجارتی تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں لیکن عسکری تعلقات بہتر ہونا انتہائی مشکل ہیں۔چین کی مضبوطی امریکہ کے لیے اس لیے بھی ناقابل برداشت ہے کہ وہ ڈالر کے مقابلے میں برکس کرنسی لانے کی کوشش کر رہا ہے۔امریکی مخالفت برداشت کرنا انڈیا کے لیے بھی انتہائی مشکل ہے۔اس لیےچین اور انڈیا کے درمیان تعلقات فوری طور پر بہتر نہیں ہو سکتے،ہو سکتا ہےمستقبل میں بہتر ہو جائیں۔ایس جے شنکرنےچینی صدر سمیت کئی اعلی حکام سے ملاقاتیں کی ہیں،ہو سکتا ہےیہ ملاقاتیں بہتر تعلقات کی شروعات ثابت ہوں۔انڈیا کے چین کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے کا مطلب ہوگا کہ امریکہ سے مخالفت مول لی جائے۔اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ انڈیا کے چین کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔
جے ایس شنکر کے دورےکا ایک بڑا مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چین کو دریائے”برہم پتر”پر ڈیم بنانے سے روکا جائے۔تبت میں دریائےبرہم پتر پر167.8ارب امریکی ڈالر مالیت کے ڈیم کی تعمیر کا باضابطہ اغاز کر دیا گیا ہے۔یہ ڈیم انڈیا کی شمالی مشرقی ریاست ارونا چل پردیش کے سرحد کے قریب بنایا جا رہا ہےاور یہ منصوبہ انڈیا کے لیے باعث تشویش ہے۔ارونا چل پردیش کے وزیراعلی پیما کھانڈو نے اسے ایک “بم”سے تعبیر کیاجو انڈیا کے لیے تباہی لا سکتا ہے۔جے ایس شنکرنے خصوصی درخواست کی ہو کہ یہ ڈیم نہ بنایا جائے،لیکن چین کے لیے یہ منصوبہ بہت ہی فائدہ مند ثابت ہوگا۔اس لیے چین اس منصوبے کوچھوڑنے پر تیار نہیں ہوگا۔انڈیا میں حکومت پر عوامی حلقوں کی طرف تنقید بھی کی جا رہی ہے کہ سندھ طاس معاہدےپر پاکستان کے ساتھ جو رویہ اپنایا گیا،وہ چین کے ساتھ کیوں نہیں اپنایا جا رہا ہے؟ڈیم کا رکوانا انڈیا کے لیے ناممکن ہے،کیونکہ نہ تو جنگ کر سکتا ہےاورنہ تجارتی تعلقات کی دھمکی دے سکتا ہے،اس لیے منت سماجت کے ذریعے روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔بہرحال اصل حقائق انڈین گورنمنٹ اور چینی گورنمنٹ کو ہی معلوم ہوں گےنیز یہ بھی کہ انہوں نے کن موضوعات پر بات کی یا کون سے منصوبے زیر بحث لائے؟مستقبل میں بہت سےحقائق سامنے آجائیں گے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International