یورپئین یا انگریزوں کی نشلزم یہ ہے کہ وہ منہ سے نعرے نہیں مارتے بلکہ عملی اقدام پر یقین رکھتے ہیں ۔ میں 1987 میں ایک بڑی کنسٹرکشن کمپنی میں پرچیزینگ افیسر تھا ۔ اس زمانے میں ہر طرف انگریز کنسلٹنٹ ہوا کرتے تھے ۔ ان انگریز کنسلٹنٹ کام یہ تھا کہ کسی ویلا یا بلڈینگ کے لئے جب ڈرائینگ بناتے تھے تو اس کے لئے ہر قسم کا سامان یعنی بلڈینگ میٹرئیل میڈ ان یوکے لکھتے تھے ۔ساتھ میں بلڈینگ میٹرئیل سپلائیر کانام بھی لکھتے تھے ۔
کدال ۔۔بیلچہ ۔ بینڈین وائیر ماسکن ٹیپ الیکٹرک کنڈیوٹ جو لوکل میڈ 2 یا تین ریال کا ملتا تھا وہی یوکے میڈ 10 اور 15 ریال پر ہم خریدنے پر مجبور تھے ۔
انڈین کدال 12 ریال کی ملتی تھی جبکہ یوکے 110 ریال پر خریدتے تھے ۔
کیونکہ کنسلٹنٹ کا حکم حرف اخر ہوا کرتا تھا۔ اگر ہم کمپنی مالکان کو کہتے کہ بھئ یہی برٹش سٹنڈرڈ انڈیا چائینا اور لوکل والے سستے ملتے ہیں تو وہ بولتے انجنئیر سے بات کرو۔ انجنئیر کے نام پر انگریز کارپینٹر اور میسن اور کنکریٹ فورمین اجایا کرتے تھے ۔ جو کم پڑھے لکھے ہوتے لیکن اپنی فیلڈ میں تھوڑی بہت مہارت رکھتے تھے اس لئے انہیں بطور انجنئیر کی سٹیٹس پر بلائے جاتے تھے۔ ہمارے اشیائی انجنئیر 3000 ریال ہر کام کرتے جبکہ یہی انگریز فورمین جو انجنئیر کے ویزے پر اتے تھے 10 ہزار ریال سے کم سیلری پر نہیں اتے تھے۔
میں چونکہ پرچیزینگ ڈیپارٹمنٹ سے تھا اس لئے انکے لئے الگ فلیٹ اور اندر ہاوس ہولڈ سامان صرف یو کے کا خریدتا تھا ۔
گاڑی کا انتخاب جب ہوتا تھا تو صرف یوکے میڈ یعنی رینج رور ۔ لینڈ رور اور اگر فرنچ یا جرمن ہوتے تو مرسیڈیز والوو۔ سیټٹران بیجو اور بی ایم ڈبلیو لیتے تھے ۔
حتی واشنگ مشین اور گھریلو اشیا تک یورپ کے بنائے ہوئے لیتے تھے ۔
لوکل بازار میں پاکستان ایران اور انڈیا کی ٹماٹر 3 ریال کلو ملتے تھے یہ لوگ نیدر لینڈ کے مہنگے ٹماٹر خریدتے تھے جو کہ 10 اور 15 ریال سے کم نہیں ملتے تھے۔
کمپنی نے میری تنخواہ بہت کم لگائی گئ تھی ۔
ایک انڈین انجنئیر محمد اکبر کی بے حد اصرار پر جب میں نے 2000 ریال تنخوا پر کام چھوڑا تھا ۔ اور یہاں پر
انہوں نے 1300 پر مجھے لگایا تھا یوں سمجھو کہ مجھے زبردستی کام پر لیجاکر لگایا گیا تھا۔
کیونکہ وہ خود بہت کمزور اور ڈرپوک تھا اور چونکہ میرے ڈیرےمیں رہتا تھا اور میں تازہ تازہ پاکستان سے چھٹی گزار کے ایا تھا تو وہاں پر اپنی حفاظت اور حوصلہ بڑھانے کی خاطر مجھے لگایا گیا تھا۔ مسٹر ریکس پیٹ ہمارے جی ایم تھے وہ میرے کام سے بہت مطمئین تھے لیکن جب بھی اس سے تنخوا بڑھانے کی بات کرتا کہتا یار میں چئیرمین سے اب نہیں کہہ سکتا کیونکہ میں نے اس سے اپنے ویلے میں رنگ کی بات کی ہے ۔ خیر بعد میں نے
اپنی پہلی پھٹیچر قسم کی پرانی ٹویٹا گاڑی 1500 ریال میں خریدی تھی
جس کی وجہ سے میری تنخوا 700 ریال بڑھا دی گئ تھی ۔
ایک دن ایک انگریز فورمین جو اپنے اپ کو انجنئیر جانسن کہلاتے تھے کو میں نے اپنی پھٹیچر گاڑی میں بیٹھا کر کسی سائیٹ پر لیجانے کے لئے سوار کیا ، تو غرافہ روڈ پر بڑے بڑے شیخوں کے پیلسز ( محلات ) انہیں دیکھائے۔ کہ ہم بھی اپنے مسلمان بھائیوں کی کوٹھیاں اور قصر محلات دیکھا کر اسے مرغوب کریں ۔ (( اجکل امریکن ایمبسیی بھی ان میں سے ایک پیلس میں ہے))
تو میں نے مسٹر جانسن سے کہا۔
یہ سامنے پیلسز( محلات ) دیکھ رہے ہو؟
انہوں نے سرسری نظر ڈالکر کہا:
جی ہاں بہت بڑے بنائے ہیں ۔
میں نے اسے پوچھا کہ کیاانگلینڈ میں ایسے پیلسس (محلات) ہیں ۔؟
جانسن نے جب یہ سنا تو بہت سخت غصہ ہوئے اور میری طرف دیکھتے ہوئے کہا
“These are servant’s quarters compared to the palaces of England.”
یہ انگلینڈ کے محلات کے مقابلے میں نوکروں کی کوارٹرز ہیں ۔
اس دن مجھے پتہ چلا کہ ہم صرف منہ سے نشنلزم کہہ کہہ کر منافقت کرتے ہیں ۔
اصل نشنلزم تو یہی ہے ۔ کہ یورپئین اپنے ملک کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اور کس طریقے اسے فائیدہ پہنچاتے ہیں
فیروز افریدی
قطر 27 دسمبر 2024
Leave a Reply