Today ePaper
Rahbar e Kisan International

اور پھر شادی ہو گئی

Articles , Snippets , / Friday, February 7th, 2025

مرادعلی شاہدؔ دوحہ قطر

منیرنیازی کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے اپنی پہلی بیوی کے انتقال کے کچھ عرصہ بعد ہی دوسری شادی کر لی۔شادی کے چند روز بعد ہی ایک یونیورسٹی کے مشاعرہ میں اپنی مشہور زمانہ نظم کا ابھی پہلا مصرع ہی پڑھا تھا کہ
ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں،ہرکام کرنے میں
پیچھے سے کسی منچلے کی آواز آئی کہ
ویاہ کرن لگیا ں تے منٹ نئیں لایا
مجھے یاد ہے میری شادی سے قبل عادات واطوار اور شوخیوں کو نوٹ فرماتے ہوئے خاندان کے ایک بزرگ بڑے نے نوٹ لکھ کر نصیحت فرمائی تھی کہ
بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی ایک نا ایک دن تو چھری تلے آنا ہی ہوتا ہے
شادی سے ایک سال بعد ہی مقولہ کی درستگی کرتے ہوئے خاندان کے بزرگ کو نوٹ مع ایک ہزار کے نوٹ،واپس کردیا کہ حضرت اپنے مقولہ میں درستگی فرماتے ہوئے”بکرے کی جگہ بکری“ فرمالیں کہ منکہ مسمی میں اب بکرے والی کوئی خوبی نہ ہے۔
وہ جنہیں یہ زعم ہوتا ہے کہ مرد تو مرد ہوتا ہے اسے مرد بن کر ہی زندگی گزارنی چاہئے،ایسے مرد حضرات سے میری درخواست ہے کہ شادی کروا کے دیکھ لیں۔
میرے محلے کے ایک پہلوان کو تن سازی اور کھائی ہوئی خوراک پر ناز ہے،پھر”ناز“ نامی ایک خاتون سے شادی ہوگئی،مہینہ بھر اکھاڑہ کا رخ نہ کرنے پر پوچھا تو دھیمی سی آواز میں بولے”شادی ہوگئی اے“شادی کے بعد اکثر تاخیر تک اکھاڑے میں ہی پائے جاتے ہیں۔کوئی پوچھے کہ گھر کیوں نہیں جاتے تو،جواب بعد میں دیتا ہے ڈمبل پہلے اٹھا لیتا ہے۔
شادی کا لڈو کھا کر پچھتانے والے بھی اب پچھتا رہے ہیں کہ لڈو کی جگہ گلاب جامن کھا لیتے تو آج منہ کا ”سواد“میٹھا میٹھا ہوتا۔
تاریخ شاہد ہے کہ مغل حکمرانوں کے ہاں خاتون اوًل کا درجہ ماں کو حاصل رہا ہے ماسوا نورجہاں اور ممتاز محل کے۔ایک ماں بننے کے چکر میں دیوار میں چنوا دی گئی اور دوسری ماں بنتے ہوئے خالق حقیقی سے جا ملی۔اسی لئے تو تاریخ ستم ظریف ہوتی ہے۔کہتے ہیں شادی وقت پر ہی کروا لینی چاہئے وگرنہ وقت اور بیوی دونوں ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔
ضرب المثل مشہور ہے کہ اولاد مرد اور دولت عورت کے نصیب سے آتی ہے۔یہ بات بھی اب قصہ پارینہ ہے،عورت اب وہیں آتی ہے جہاں دولت آتی ہے۔غریب کو تو یہ کہہ کر پاس کردیتی ہے کہ تم سے”باس“آتی ہے۔باس سے یاد آیا کہ ایک باس کی چوتھی شادی ہو رہی تھی کہ مولوی نے پوچھا ”قبول ہے“ تو باس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
”مولوی پہلے کبھی میں نے انکار کیا ہے جو،اب کروں گا“
شادی کے بارے میں پٹھان کی زبان اور عورت میں قدرے فرق نہیں پایا گیا۔اگر پٹھان بھائی کہتے ہیں نا کہ پٹھان کا زبان ایک ہوتا ہے تو خواتین کا بھی کچھ ایسا ہی خیال ہے۔یونیورسٹی میں بیٹھی دو سہیلیاں مستقبل کے بارے میں گفتگو فرما رہی تھیں ایک دوسری کو کہتی ہے کہ جب تک میں پچیس کی نہ ہوجاؤں میں شادی نہیں کروں گی۔دوسری نے جواب دیا کہ میں جب تک شادی نہیں کروں گی پچیس کی نہیں ہوں گی۔سیانے سچ ہی کہتے ہیں کہ شادی میں تعجیل اور بچے پیدا کرنے میں تاخیر سے کام لینا چاہئے۔اس طرح دل اور جسم دونوں جوان رہتے ہیں۔میری ایک کلاس فیلو کو جب بھی ہم پوچھتے کہ ڈگری کے بعد کیا کرو گی مستقل مزاجی سے ایک ہی جواب آتا۔جھٹ منگنی پٹ ویاہ۔اور پھر ایسا ہی ہوا۔فارغ التحصیل ہوتے ہی اس نے نہ ویاہ میں تاخیر کی اور نہ بچے پیدا کرنے میں۔دس سال بعد re-union ہوئی تو محفل میں ایکبرے حال بانکے دیہاڑے،ژولیدہ زلف آنٹی کی موجودگی کو دیکھتے ہوئے اسے پوچھا کہ آپ کون؟
”حمیرا“
”کیا ہوا“
”شادی“
”ستیاناس کس نے کیا“
”شوہر نے“
اور اب”اب پانچ بچوں اور ایک سوتن کی ماں ہوں“
شادی سے قبل بندہ اتنا آزاد ہوتا ہے کہ ایک شادی شدہ سے کسی نے پوچھا کہ
”شادی سے پہلے کیا کرتے تھے“ رندھی ہوئی آواز میں بولا”جو دل کرتا تھا“
اور اب
”اب جو بیوی کا دل کرتا ہے“
میرے ہم عصر عمر سعید کا زعم ہے کہ اس کا ہر قول،قول صادق ہوتا ہے ماسوا شادی کے۔نوکری اور گورا چٹا ہونے کے باوجود تاحال کنوارہ پن کے مزے اٹھا رہا ہے۔ویسے دفتری معاملات میں ”اٹھانے“ سے قاصر ہے۔کہتا ہے ”اٹھانے“والا کام شادی کے بعد کروں گا۔کہ اس سے عائلی زندگی میں سکینت رہتی ہے۔آجکل روازنہ کی بنیاد پر کمرے میں ہی ”ڈمبل“اٹھاتا ہے۔لگتا ہے اس سال شادی کروا لے گا۔
میں نے ایک بار پوچھا کہ ڈمبل کمرے میں کیوں اٹھاتے ہو،جواب آں غزل کہ
”اٹھانے اور پلانے والے کام بند کمرے میں ہی کرنے کا قائل ہوں اس سے بے پردگی نہیں ہوتی“،غالب کا دیوانہ اس لئے ہے کہ شادی کے بارے میں دونوں کے خیالات میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔شادی کے بارے میں غالب کہتا ہے کہ ”یہ ایک نہائت احمقانہ فعل ہے،میں نے یہ کیا اور خوب کیالیکن اب پشیمان ہوں“
”اگر نکاح نہ کیا ہوتا تو آج آدمی ہوتے اب میں شوہر کہلانے کے لئے زندہ ہوں“
امراؤ بیگم زندہ ہوتی تو پوچھتے کہ یہ احمقانہ فعل غالب سے ہوا یا آپ سے سرزد۔
میرے پھوپھا داستان گوئی میں مشاق تھے،رات گئے جب کہانی سناتے سناتے اختتام کرتے تو ایک جملہ ضرور کہتے
ایک تھا چڑا اور ایک چڑی دونوں کی شادی ہوگئی اور پھر دونوں ہی چڑ چڑے ہوگئے۔
سچ بات تو یہی ہے کہ مرد ہو کہ عورت ایک خاص عمر میں جا کر دونوں کا دل کرتا ہے کہ ”چڑچڑے“ہو جائیں۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International