افسانچہ
تحریر:اشعر عالم عماد۔کراچی
آج صبح آفس جاتے ہوئے میری نظر ایک کچرا چننے والے بچے پر پڑی (جو ہمارے گھر اور محلہ کا کچرا اٹھاتا تھا) وہ کچرے سے آدھے بچے ہوئے کینو چن کے اس میں سے صاف قاشیں تلاش کرکے کھا رہا تھا میں اس کے پاس گیا اور اسے ڈانتے ہوئے اس سے کہا یہ کیا حرکت ہے؟ یہ خراب اور گندے کینو کیوں کھا رہے ہو؟
اس نے جھٹکے سے کھڑے ہوتے ہوئے کینو پھینکا اور ٹوٹی پھوٹی اردو میں کہا “صاب امارا دل کر رہا تھا” میں نے والٹ سے 100روپے کا نوٹ نکال کے اسے تھمایا اور اسے سمجھاتے ہوئے کہا کہ بیٹا دل چاہ رہا ہے تو خرید کے کھا لینا اور آئندہ کچرے سے اٹھا کے نہ کھایا کرو اسطرح کی چیزیں کھانے سے بیمار ہو جاتے ہیں۔۔۔
یہ کہہ کر میں جانے لگا تو اس نے مجھ سے کہا”صاب اک بات بولے؟
میں نے کہا ہاں کہو…!
“صاب جب تمارا گر میں کوئی کانے چیز زیادہ ہو تو پینکا مت کرو امارے کو دے دیا کرو ہم کا لے گا”
اس نے کہا۔۔۔
کیا مطلب ہم تو تمھیں اکثر کھانا دیتے ہیں۔۔۔پھر۔۔۔؟
میں نے حیرت سے کہا۔۔۔
“صاب ام کو آدھا بچا ہوا کینو تمھارے کچرہ سے ملتا ہے” جو خراب نہیں ہوتا بلکہ چھوڑا ہوا ہوتا ہے۔۔۔
اس نے نظریں نیچی کرتے ہوئے کہا۔۔۔
اُس کا یہ جملہ سنتے ہی مجھے لگا کہ میں دو سو فٹ زمین میں گاڑ دیا گیا ہوں ۔۔۔۔
یعنی میں اپنی ذات کے کٹھہرے میں کفران نعمت کا مرتکب تھا۔۔۔۔
میرے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا۔۔۔
میں نے ندامت سے اپنا سر جھکایا اور خاموشی سے چل دیا ۔۔۔۔ شاید میں اس بچے سے اپنے آنسو چھپانا چاہتا تھا۔۔۔۔
Leave a Reply