تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
پیارے قارئین!زندگی کے سفر میں کامیاب لوگ وہی ہوتے ہیں جو اپنا راستہ خود بناتے اور تلاش کرتے ہیں۔دانش مند لوگ زندگی کا ایک ایک لمحہ محنت اور لگن سے بسر کرتے ہیں۔وہ وقت کی قدر اور اہمیت سے آشنا ہوتے ہیں۔کسی کی اندھی محبت کے اسیر نہیں ہوتے بلکہ زندگی کی حقیقی منزل پانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔آداب زندگی کا احترام اور محبت کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے آگے بڑھتے ہیں۔تاریخ عالم میں بے شمار ہستیوں کے حالات و واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ان کی روشنی میں سرسری جائزہ لیا جاۓ تو ابن رشد نے 73سال کی عمر پائی تھی۔تصانیف کی تعداد 67،جن میں 28 کتب فلسفہ کے متعلق ہیں اور 20کتب طب پر مشتمل ہیں۔8کتب قانون کے متعلق اور دیگر عنوانات پر مشتمل ہیں۔بو علی سینا 1980میں پیدا ہوۓ اور 1037میں انتقال ہوا۔57 برس کی عمر پائی۔ساڑھے چار سو کاموں میں سے دو سو چالیس تک کاموں کا ذکر موجود ہے۔نیز مشھور کتاب الشفاء اٹھارہ جلدوں پر مشتمل ہے۔ابن الہیثم نے 75سال کی عمر پائی تھی۔انہوں نے 45 کتب لکھیں۔معروف ہستی البیرونی نے 77 برس کی عمر پائی تھی۔14کتب لکھیں۔سلکندی نے 70سال کی عمر پائی تھی۔مخطوطات کی تعداد دو سو سے زیادہ ہے (بحوالہ۔یاسر پیرزادہ ۔کالم نگار)
کس قدر عظیم لوگ تھے۔محنت شاقہ سے کارہاۓ نمایاں سر انجام دیے۔ان ہستیوں کا معمول تو ایسا تھا کہ طلوع صبح ہوتے ہی شام تک سینہ کتب سے علم کے موتی تلاش کرنے میں محو رہتے تھے۔تحقیق کا سفر ختم نہ ہوتا تھا۔علم کے چراغوں سے محبت تھی اور روشنی کے حصول کے لیے کوشاں رہتے تھے۔وہ لوگ کتنے اچھے تھے جو علم کی وادیوں کی سیر کرتے تھے اور محظوظ ہوتے تھے۔گویا وقت کی قدروقیمت کا احساس غالب تھا۔کتب کی خوشبو سے اطمینان محسوس کرنے والے لوگ آج بھی تاریخ کے سینے میں زندہ ہیں۔ان کا کمال یہی تھا کہ علم کی دولت حاصل کرتے اپنا راستہ خود تلاش کرتے تھے۔اخلاقی محاسن سے زندگی خوبصورت بنانے کی ضرورت ہر عہد میں رہتی ہے۔عہد قویم ہو کہ عہد حاضر تعلیم کی اہمیت مسلمہ ہے۔سوشل میڈیا پر جس قدر وقت کے قیمتی لمحات ضائع کیے جا رہے ہیں شاید اس نقصان کا عہد حاضر کے نوجوان کو نہیں۔زندگی مختصر ہونے کی بات تو کی جاتی ہے لیکن محنت میں عظمت کا زریں اصول بھول چکے ہیں۔یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کامیابی ان لوگوں کو ملتی ہے جو اپنا راستہ خود تلاش کرتے ہیں۔ماضی کے حالات کا جاٸزہ پیش کرنے کا مدعا صرف اتنا سا ہے کہ ہمارے عظیم مشاہیر قلم نے علم کی دولت سے پیار کیا۔علم کی دولت دامن دل میں سمیٹی اور انسانیت کی بھلاٸی کے لیے کام کیا۔اس کے تناظر میں عہد حاضر کے جو تقاضے ہیں ان کی تکمیل کے لیے بھرپور انداز سے محنت کا سفر جاری رکھا جاۓ۔جن لوگوں نے جہالت کے خلاف جہاد کیا وہی روشن ستاروں کی مانند جھلملاتے ہیں۔بے مقصد مشاغل سے تو قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے۔وقت تو قیمتی بہتا دریا ہے۔اس کی اہمیت کا ادراک ضروری ہے۔
رابطہ۔03123377085
Leave a Reply