Today ePaper
Rahbar e Kisan International

اکتوبر5 ۔۔۔۔ یوم اساتذہ کرام

Articles , Snippets , / Saturday, October 4th, 2025

rki.news

عامرمُعانؔ

کسی بھی مخصوص دن کو ہر سال منانے کے کچھ مقاصد ہوا کرتے ہیں۔ اس دن کی مناسبت سے کچھ وعدے کئے جاتے ہیں تو کچھ پختہ ارادے باندھے جاتے ہیں، کچھ کامیابی کا جشن منایا جاتا ہے، تو کچھ خامیوں پر قابو پانے کے جذبے کا اظہار کیا جاتا ہے۔ کچھ معاشرے میں آگاہی کے فرائض تندہی سے انجام دینے کا ذمہ اٹھایا جاتا ہے۔ تو کچھ معاشرے کو نفع پہنچانے کی ذمہ داریوں کا بوجھ اپنے کاندھوں پر لاد لیا جاتا ہے، اور کچھ اپنے اہداف حاصل کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے انہیں انعامات سے نواز دیا جاتا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی بھی ہدف حاصل نہ کیا جا سکے، تو پھر ایک اہم اور مخصوص دن منانا سوائے ایک دھوکے کے اور کیا ہو سکتا ہے، پھر وہ ایک ایسا دن بن جاتا ہے، جس میں ہر سال صرف بیانات دے کر تسلیاں دی جا سکیں، کچھ جھوٹے وعدے کئے جا سکیں، کچھ اعدادوشمار کا ہیر پھیر پیش کیا جا سکے، کچھ انعامات کی بندر بانٹ کی جا سکے، اور پھر اگلے سال تک کے لئے کچھوے ہی کی چال چلنے پر بھروسہ کر کے خواب خرگوش کے مزے لئے جا سکیں۔
ایسا ہی کچھ حال ہمارے ملک میں ہر سال منائے جانے والے دن ‘ یوم اساتذہ ‘ کا بھی ہے۔ یونائٹڈ نیشنز کے اعلان کے مطابق سال 1994 سے اساتذہ کرام کی اہمیت ، بنیادی سہولیات، اور بہترین تدریس کے بارے پاس ہوئے 1966 کے قانون کی یاد میں ہر سال 5 اکتوبر کو یوم اساتذہ منایا جاتا ہے۔ جس کے مقاصد میں شامل ہے کہ ہر سال اس دن پچھلے سال کی کارکردگی کو مدنظر رکھ کر مستقبل میں مزید بہتری کی طرف بھرپور توجہ دی جائے گی۔ اساتذہ کے مسائل کو حل کرنے کی حتی الامکان کوششیں کی جائیں گی۔ معاشرے میں استاد کے کردار کو اجاگر کرنے کے لئے معاشرے کی ذہن سازی کی جائے گی۔ دیگر ممالک میں اس پر عمل پیرا ہو کر اپنے اہداف کامیابی سے حاصل کئے جا رہے ہیں۔
پاکستان میں پہلے بھی یہ دن منایا جاتا تھا ، لیکن 2007 سے اس دن کو ‘سلام ٹیچر ڈے’ کا عنوان دے کر اس دن کو ہر سال پورے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا یا پھر پرنٹ میڈیا ہر جگہ اس دن کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ بھرپور تشہیری مہم چلائی جاتی ہے۔ اچھے اچھے پیغامات نشر کئے جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی اساتذہ کرام کی خوب واہ واہ کی جاتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارے معاشرے میں واقعی اساتذہ کرام کو وہ مقام حاصل ہے، جس کا وعدہ یو این او کے قانون میں کیا گیا ہے، لیکن اس دن کے گزرتے ہی اگلے ہی دن سے دوبارہ اساتذہ کرام کی حقوق کمیٹیاں اور یونینز کے بیانات بھی انہی میڈیمز کی زینت بننے لگتے ہیں، اور ہر شہری کی نظر سے گزرنے لگتے ہیں۔جس سے یہ آگاہی حاصل ہونے میں دیر نہیں لگتی کہ تاحال اساتذہ کرام کے حالات جوں کے توں خراب ہی ہیں۔ معاشرے میں ان کا مقام اعلی شخصیات میں شامل ہونے کے بجائے، ایک ایسے طبقے میں شامل ہے جس کی عزت معاشرہ تاحال کرنا نہیں سیکھ سکا ہے۔ ہڑتالوں اور احتجاج کی خبریں سارا سال سن سن کر حکومت کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی،  لیکن جب 5 اکتوبر کے اس دن حکومت کی طرف سے اساتذہ کرام کی تعریفیں سنتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سارا سال شائد حکومت کسی اور کی تھی وگرنہ اساتذہ کرام کے مسائل تو کب کے حل ہو چکے ہوتے۔
ہم سب اس بات سے آگاہ ہیں کہ استاد کا کردار کسی بھی معاشرے کی تعمیر میں سب سے اہم ہوتا ہے۔ یہ اساتذہ کرام ہی ہیں جو طلباء کے ذہنوں پر ملک سے محبت کا سبق کندہ کر دیتے ہیں۔ ان کے دلوں میں دین سے محبت پختہ کر دیتے ہیں۔ ان کے اندر زندگی کی کٹھن مشکلات سے نمٹنے کا حوصلہ اجاگر کرتے ہیں، اور ملک کو زندگی کے ہر ہر شعبہ میں باصلاحیت افراد مہیا کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی و تعمیر میں جس شعبے پر سب سے زیادہ توجہ دئیے جانے کی ضرورت ہے وہ تعلیم کا شعبہ ہی ہے۔ یہ کامیابی کی سیڑھی پر وہ پہلا قدم ہے، جس پر قدم رکھ کر طلباء کامیابی کی منازل کے خواب دیکھنا شروع کرتے ہیں۔ یہ وہ شعبہ ہے جو طلباء میں شعور اجاگر کر کے انہیں اچھے شہری بننے کا سبق ازبر کرواتا ہے۔ معاشرے میں تحمل اور بردباری پروان چڑھاتا ہے۔ ایک بہترین معاشرے کے بارے میں لکھی گئی کتابی باتوں کو عملی زندگی میں لاگو کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ملک میں اب بھی ایک بڑی تعداد بچوں کی جو ایک اندازے کے مطابق 2 کروڑ سے اوپر ہے، اسکولوں میں جانے سے محروم ہے۔ جس کی بنیادی وجہ غربت ہے۔ حکومتی دعوؤں کے برعکس اب بھی آپ کو دکانوں، گیراجوں، اور ہوٹلوں پر چھوٹے چھوٹے بچے محنت مزدوری کرتے نظر آئیں گے۔ جن کی تعلیم سے دوری شعور سے دوری کا باعث بن رہی ہے۔ اسی طرح اتنے سال کے وعدوں کے باوجود سرکاری اور پرائیویٹ درس گاہوں میں ایک واضح فرق معاشرے میں بھی ایک واضح فرق قائم رکھنے کی وجہ بن رہا ہے۔ جب تک یکساں ماحول سب اساتذہ اور طلباء کو مہیا نہیں کیا جاتا، تب تک معاشرے میں اس فرق کی واضح لکیر نظر آتی رہے گی۔
ہر سال اساتذہ کرام کا دن منانا ایک اچھی روایت ضرور ہے لیکن ہم کو ہر سال پچھلے وعدوں کی تکمیل کا حساب بھی سب کے سامنے رکھنا چاہیے، اور اگلے سال کے لئے بنائے گئے منصوبوں کے قابل عمل ہونے کی تصدیق بھی کرنی چاہیے۔ پچھلے سال کے وعدے ادھورے رہ جانے کی وجوہات بھی سامنے ہونی چاہیے، تو ان ناکامیوں کی وجوہات کو دور کرنے کا عزم بھی ہونا چاہیے۔
ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ اس سال صرف نشستن،  گفتن،  برخاستن کے بجائے اصل مسائل پر بھرپور توجہ دی جائے، تاکہ معاشرے میں اس دن کو صرف منانے کی ہی اہمیت محسوس نہ ہو، بلکہ اس دن یہ پیغام بھی ملے کہ ہم وہ زندہ قوم ہیں جو سارا سال اس دن میں کئے گئے وعدوں کو نا صرف یاد رکھتے ہیں، بلکہ اساتذہ کرام کو میڈیا پر صرف زبان سے نہیں بلکہ دل سے عزت دیتے ہیں، اور جہاں کہیں یہ معماران قوم ہمیں نظر آئیں تو ہم ان کو وہ عزت دے سکتے ہیں، جو کسی بھی معاشرے میں اعلی ترین طبقات کو دی جاتی ہیں۔ یاد رکھئے عمل سے زندگی بنتی ہے، خوش کن باتوں سے کچھ وقت اچھا گزر سکتا ہے، مگر حالات میں بہتری لانا ممکن نہیں ہوتا ہے۔ امید ہے کہ ہم ایک بہترین قوم کا ثبوت دیتے ہوئے معاشرے کے ان اہم افراد کی قدر ضرور کریں گے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International