از قلم
بلال احمد
مستونگ (بلوچستان)
افسانہ
حادثات تو کٸی قسم کے ہوتے ہیں لیکن انسانی زندگی خود ایک حادثہ ہے اور انسان کے بدلنے کے لیے فقط ایک لمحہ، کوٸی واقعہ یا کسی کا کوٸی رویہ ہی کافی ہوتا ہے۔
عالم شباب کی رعناٸیوں، دل کش رنگوں اور مناظر فطرت کی رنگوں میں پھلنے والا منیر دنیاوی و اُخروی معاملات سے بالکل بے گانہ تھا۔ اسے نہ رب کی خوشنودی کا خیال تھا اور نہ ہی رشتے ناتوں کی فکر تھی۔ وہ محض اپنی ذات تک محدود تھا اور آج تک کسی دکھ کا اس کے دل کی راہ سے گزر نہیں ہوا تھا۔
منیر کو اس حقیقت کا بالکل اندازہ نہیں تھا کہ انسانی زندگی نشیب و فراز، اندھیرا اجالا، خزاں و بہار اور خوشی و غمی کا امتزاج ہوتا ہے۔ اس وقت وہ دوسرے شہر میں اپنے ماموں کے ہاں رہ رہا تھا جہاں وہ زیرِ تعلیم تھا۔ اس شہر میں اس کے کچھ دوست بن گٸے تھے اور روزانہ عصر کے وقت ان سے ملاقات ہوتی۔
جس جگہ وہ رہاٸش پذیر تھا وہاں سے تھوڑے ہی فاصلے پر ایک درویش کامرانی بابا کا آستانہ تھا جب منیر کو اس بات کا علم ہوا تو وہ روز مغرب کے بعد ان کے پاس جانے لگا۔ اس درویش کے پاس جاکر اسے عجب سکون میسر ہوتا۔ کچھ دنوں تک تو منیر کی کامرانی بابا سے کوٸی بات نہیں ہوٸی، وہ اکثر ان کے پاس خاموش بیٹھا رہتا مگر آہستہ آہستہ ان سے قربت بڑھ گٸی اور وہ منیر کے ساتھ بڑی شفقت سے پیش آنے لگے۔
ایک دن حسبِ معمول وہ گھر سے نکل کر اپنی دھن میں مگن کٸی جارہا تھا کہ یکایک اس کی نظر ایک گھر کے دروازے پر پڑی جہاں سے ایک حسن و جمال کا پیکر برآمد ہوٸی۔ بلا کی نظر، قیامت خیز آنکھیں، کلی سے زیادہ نازک، خوب رُو اس قدر کہ دیکھ کر حور بھی شرماٸے غرض ہر ہر ادا قاتلانہ تھی۔ پہلی نظر میں اس کا عکس منیر کے دل میں اتر گیا اور وہ اس کی طرف سے نظریں ہٹانے کی جرأت نہیں کرسکا کیوں کہ جہاں چراغ جلتا ہے تو وہاں پروانے پہنچ ہی جاتے ہیں انہیں جانیں نثار کرنے سے کوٸی نہیں روک سکتا۔ وہ ایک خاتون اور ایک لڑکی کے ہمراہ کٸی جارہی تھی۔
منیر کی نظریں اس پر برابر جمی رہی مگر کچھ ہی لمحوں میں وہ دوسری طرف مُڑ کر آنکھوں سے اوجھل ہوگٸی اور وہ حسرت سے دیکھتا رہا۔
منیر کے ہوش و حواس پر اس خوب رو کا پیکر چھاگیا اور اس کے دل و دماغ میں اس کا عکس پوری طرح سماگیا۔ اب وہ ہر لمحہ اس کے تصور میں مگن رہتا اور شدّت سے دیدارکی تجسس رہتی۔ وہ ہمیشہ تعاقب میں رہتا کہ کسی طرح اس کا دیدار میسر ہو تاکہ اس کی تڑپ کچھ کم ہو۔ کافی عرصے کے بعد ایک دن وہ لڑکی اپنی سہیلیوں کے ہمراہ کٸی جارہی تھی، منیر کی نظر ان پر پڑی تو اس نے پہلی جھلک میں اسے پہچان لیا۔
کچھ لمحات صدیوں سے بھی زیادہ قیمتی ہوتے ہیں اور یہ وقت کا فلسفہ بھی عجیب ہے۔ وقت ایک گھڑی ساز کے لیے سوٸیوں کی ٹِک ٹِک کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا مگر یہاں عاشق کے لیے محبوب کے ایک لمحے کی دیدار میں پوری زندگی تھی۔ اس لڑکی کو اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ منیر اسے کس نگاہ سے دیکھ رہا ہے مگر اس نے نظر انداز کی۔ اس لڑکی کا نام گلثم تھا اور وہ ایک اعلٰی خاندان کی دوشیزہ تھی۔
اس دن کے بعد منیر کٸی عرصے تک سوچ میں رہتا اور اس کے دیدار کے لیے شدید بے چین رہتا۔ وہ اس سے بہت کچھ کہنا چاہتا تھا مگر اسے کبھی موقع نہیں مل سکا اور وہ محبت کی اس تڑپ کو اکیلے ہی جھیلتا رہا۔ گلثم کی بے توجہی اسے بہت تڑپا رہی تھی جس کی وجہ سے وہ اکثر خاموش رہتا۔
ایک دن وہ کامرانی بابا کے پاس بیٹھا تھا تو بابا نے اس کی کیفیت کا اندازہ کرلیا کیوں کہ ایک درد دل رکھنے والا انسان ہی اداس آنکھوں کے حلقوں کے نیچھے لکھی نظم کو پڑھ سکتا ہے اور سکوت کے پاس بڑے جواب ہوتے ہیں مگر اس کو سننے کے لیے دل والی قوتِ سماعت چاہیے ہوتی ہے۔
کامرانی بابا نے منیر کو مخاطب کرکے کہا۔۔۔۔!
خاموشی کے دکھ بڑے کرب ناک ہوتے ہیں جن سوالوں کے جواب نہیں ملتے، خاموشی چپ چاپ انہیں اپنے اندر جذب کرلیتی ہے۔
منیر نے پوچھا۔۔۔۔!
کیا واقعی محبت کا کوٸی وجود ہوتا ہے
بابا : – محبت پوری کاٸنات میں رقصاں ہے جسے معلوم ہوجاٸے تو وہ دھوپ چھاٶں کو صرف برداشت ہی نہیں کرتا بلکہ اس سے لطف اندوز بھی ہوتا ہے۔
منیر بابا کی باتوں کو غور سے سنتا رہا۔
کامرانی بابا نے منیر سے پوچھا جانتے ہو محبوب کون ہوتا ہے
منیر نے انکار سے سر ہلایا۔
بابا:- جس کا نام لبوں پر آنے سے پہلے آنکھوں میں آجاٸے وہ محبوب ہوتا ہے۔
منیر:- کیا محبت یک طرفہ بھی ہوسکتی ہے
باباجی بولے۔۔ نہیں پگلے محبت کبھی یک طرفہ نہیں ہوتی صرف اظہار یک طرفہ ہوسکتا ہے۔
منیر کی بے چینی مزید بڑھتی گٸ اور اب اس کی تعلیم بھی مکمل ہوچکی تھی اس لیے وہ اپنے شہر چلاگیا مگر گلثم کی یاد نے اسے بے چین کردیا اور وہ چند ہی ہفتوں بعد واپس ماموں کے ہاں چلا آیا۔
ایک دن جب اس نے اچانک راہ میں گلثم کو دیکھ لیا تو اس کا دل باغ باغ ہوگیا۔ اس سے رہا نہیں گیا اور جاکر اسے اپنا حالِ دل سنا دیا۔ گلثم اس وقت بڑی جلدی میں تھی اس لیے اس نے منیر کو اگلے دن ملاقات کے لیے بلایا۔
منیر کے خوشی کی انتہا نہیں تھی اور وہ اگلے دن مقررہ وقت سے دو گھنٹے پہلے اس مقام پر پہنچ گیا۔گھنٹوں ساتھ رہنے کے بعد گلثم واپس چلی گٸی۔ اب اس طرح کی ملاقاتیں معمول کا حصہ بن گٸی اور منیر اپنے خوابوں کی دنیا میں مگن تھا۔
وقت گزرتا گیا اور اچانک گلثم کی طرف سے رابطہ منقطع ہوگیا جس کی وجہ سے منیر سخت پریشان و بے چین رہنے لگا اور وہ اس کی ایک جھلک کے لیے بھی مکمل طور پر ترس گیا۔ دن گزرتے گٸے اور حتٰی کہ مہینے گزرگٸے مگر اس کی کوٸی خیر و خبر نہ رہی۔ منیر واپس اپنے گھر گیا تاکہ دور رہ کر اسے کچھ عرصہ چین نصیب ہو مگر جداٸی دن بہ دن شدّت اختیار کرگٸی۔
کہتے ہیں جداٸی محبت کی آگ کو بھڑکا دیتی ہے اور جب ہجر ڈس لیتا ہے تو انسان انتظار کے نیلے سانسوں سے خوف زدہ ہوکر بے چین رہتا ہے۔ جب اسے شدت سے یاد ستانے لگی تو اس نے ایک بار پھر گلثم کے شہر کا رخ کیا مگر کٸی عرصہ گزرجانے کے باوجود منیر کو اس کے بارے میں کوٸی معلومات نہ مل سکی۔ آخرکار وہ کامرانی بابا کے پاس چلا گیا اور اس حسرت کا اظہار کیا کہ بس صرف آخری دیدار میسر ہو، اس کے بعد اسے کبھی یہ طلب نہیں رہے گی۔
باباجی نے پیار سے کہا کہ یہ درد ہی ہے جو آدمی کو انسان بناتا ہے اور فرشتوں سے اسے ممتاز کرتا ہے۔ درد وہ پُل ہے مخلوق جس پُل سے گزر کر خالق تک پہنچتی ہے۔
اگلے دن منیر کٸی جارہا تھا تو گلثم کی آواز اس کے کانوں میں پڑی جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ اس کا نام لے کر اسے بلارہی تھی۔
اس وقت منیر کے خوشی کی انتہا نہ رہی۔ جب دونوں مل بیٹھے تو گلثم رو رو کر اس کی زندگی برباد کرنے اور اس کی خوشیوں کا قتل کرنے کی وجہ سے معافی مانگ رہی تھی۔ جب گلثم نے اس ملاقات کو آخری ملاقات کہا تو منیر سخت حیران ہوا۔ اس کا رشتہ بچپن میں ہی اس کے چچازاد کے ساتھ طے ہوا تھا اور اگلے ہفتے ان کی منگنی ہورہی تھی۔ گلثم والدین کے فیصلے کے سامنے سر بہ تسلیم خم ہوٸی تھی۔
اگلے ہفتے اس کی شادی ہوگٸی اور وہ بیاہ کر منیر کے شہر میں ہی سکونت اختیار کرگٸ۔
منیر کو اب اس بات کا یقین ہوگیا تھا کہ اندھیرے میں گم ہونے والے مل سکتے ہیں مگر جو روشنی میں کھوجاٸے وہ کبھی نہیں ملتے۔
وہ اس شہر کو الوداع کرنے سے پہلے جب کامرانی بابا سے آخری ملاقات کے لیے گیا تو اس کے منیر کو بتاٸے گٸے آخری الفاظ یہ تھے:
” جب آپ مجازی عشق کے سفر میں نکلتے ہیں تو اس سارے سفر میں آپ کو دو لوگ مل سکتے ہیں۔ ایک محبوب اور دوسرے آپ خود۔ دونوں میں ایک بھی مل جاٸے تو سفر کا اختتام ہوجاتا ہے۔ اگر آپ خود کو مل جاٸے تو محبوب کی تلاش ختم ہوجاتی ہے اور اگر محبوب مل جاٸے تو خود کی تلاش ختم ہوجاتی ہے“
اب منیر کی سمجھ میں یہ بات آگٸی تھی کہ جب کوٸی اپنی ذات سے مل جاتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود میں ایک مکمل کاٸنات ہے پھر مخلوق کی تلاش رُک جاتی ہے اور خالق کی تلاش شروع ہوجاتی ہے۔
وہ بت تھا لیکن اس نے خدا سے ملا دیا
خود سنگ تھا مگر ہمیں انساں بنا دیا
Leave a Reply