rki.news
عامرمُعانؔ
بدھو میاں دوائیوں کا شاپر اٹھائے کمرے میں داخل ہوئے، اور کہنے لگے، اچھے دوست ہو، دوست کی خبر گیری ہی کوئی نہیں۔ ہم بیمار ہیں اور آپ یہ تک بھی نہیں پوچھتے کہ بیمار کا حال اب کیسا ہے۔ ہم نے فوراً دریافت کیا، کہ نصیبِ دشمناں آپ کی صحت کو کس دشمنِ جاں کی نظر لگ گئی۔ بدھو میاں فرمانے لگے اسی دشمن کی نظر لگی ہے، جس کی نظر آدھے کوئٹہ شہر کو لگی ہوئی ہے۔ دشمن کو لوگ بنامِ وائرل پکار رہے ہیں، اور وائرل وائرل کہہ کر آدھا شہر اس بیماری کو بھگت رہا ہے۔ ہم نے مسکراتے ہوئے بات بڑھانے کی کوشش کی اور کہا، جنابِ من موسم بدل رہا ہے، اور بقول شاعر صرف محبوب ہی نہیں، محبوب کی طرح موسم بھی جب بدلتے ہیں تو خوب بدلہ لیتے ہیں۔ بدھو میاں چڑتے ہوئے کہنے لگے، ایک طرف بخار ہماری جان کا روگ بنا ہوا ہے، تو دوسری طرف آپ کو محبوب چین نہیں لینے دے رہا۔ ہم ہنس دئیے، ہم چپ رہے کیونکہ پردہ فاش ہونے پر ہمیں بھی بیماروں کی فہرست میں نام درج کروانا پڑ سکتا ہے۔ خیر ہم نے عیادت کا فریضہ انجام دیا۔ اس کے بعد دوائیوں کے شاپر کو بغور دیکھتے ہوئے بدھو میاں کی طرف دیکھا اور کہا اس ناتواں، ننھی سی جان پر اتنی دوائیوں کا بوجھ کیوں کر لاد لیا ہے۔ وہ بھی اتنا بوجھ کہ لگتا ہے جیب کا اچھا خاصہ بوجھ کم کر آئے ہیں۔ بدھو میاں روہانسی آواز میں کہنے لگے۔ اب اس میں اس ننھی سی جان کا قصور صرف اتنا ہے کہ ڈاکٹر کے پرائیویٹ کلینک کی رونق دوبالا کرنے پہنچ گئے تھے، کیونکہ یہی ڈاکٹرز سرکاری اسپتالوں میں فرائض منصبی اس تندہی سے انجام نہیں دیتے ہیں۔ ڈاکٹرز کا ذکر کرتے ہوئے بدھو میاں نے ایک گہری ٹھنڈی سانس لی اور کہنے لگے، ماضی میں بھی کیا طبیب ہوا کرتے تھے ، نبض دیکھ کر مریض کا حال جان لیا کرتے تھے، اور حال اتنا جان لیتے تھے، کہ یہ تک پتہ چل جاتا تھا کہ مریض کے حالات بھی طبیعت کی طرح نازک ہی ہیں۔ تب ان کے نسخوں پر دوائیوں کی تعداد بس اتنی ہوا کرتی تھی کہ مریض کی جیب پر بوجھ کم رہا کرتا تھا، اور مریض ڈاکٹرز کی فیس میں اپنی دعائیں بھی شامل کر دیا کرتے تھے۔ بدھو میاں ماضی سے دوبارہ حال میں واپس آتے ہوئے فرمانے لگے، اب تو یہ حال ہے کہ کلینک میں داخل ہوتے ہی پہلا فرض آپ کا ٹیسٹ اور ایکسرے والوں کی جیب بھرنے سے شروع ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کمال بے اعتنائی سے آپ کے سینے سے اسٹیتھو اسکوپ لگا کر فرض ادا کرتے ہی نسخہ لکھنے سے پہلے چار ٹیسٹ لکھ دیتے ہیں، کہ یہ سب کروا کر آئیں تو علاج کی طرف بڑھیں گے۔ بدھو میاں کہنے لگے ٹیسٹ کروانے کے بعد کا مرحلہ ان ادویات کے لکھنے کا ہے، جس کے بارے میں یہ مشہور حقیقت ہے کہ دواساز کمپنیاں ڈاکٹرز کو لالچ دیتی ہیں، کہ آپ اگر ہماری ادویات کی اتنی سیل کر دیں گے تو ہم آپ کو بڑے سے بڑا انعام دیں گے۔ وہ انعام جو پہلے چھوٹے چھوٹے تحائف سے اب کار اور بیرون ملک کے دوروں تک پہنچ چکا ہے۔ بلکہ اب تو ماشاءاللہ رشوت میں ڈاکٹرز کے لئے عمرہ پیکج بھی ہے کہ جس کے حصول کے بعد وہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ
رند کے رند رہے ، ہاتھ سے جنت نہ گئی
سو مریض کو ضرورت ہو یا نا ہو، ان دوا ساز کمپنیوں کی دوا لکھتے جائیے، اور انعام کے حقدار بنتے جائیے۔ بدھو میاں دوائیوں کا شاپر ہمارے سامنے لہراتے ہوئے بولے، یہ بھرا ہوا شاپر اسی انعام کا شاخسانہ ہے۔ جس میں اگر 3 دوائیاں ہمارے مرض کے لئے ہیں تو 3 دوائیاں ڈاکٹر صاحب کے انعام کی خواہش پوری کرنے کے لئے ہمارے گلے سے اترنی ضروری ہیں۔ ہم سوچنے لگے کیا یہ رشوت ایک نیا لبادہ اوڑھے ہوئے نہیں ہے؟ پھر رشوت لینے اور دینے والوں کے بارے میں جو وعید آئی ہے اس پر یہ عمل پورا نہیں اترتا؟ پھر ایسا عمل کرنے کے بعد عمرہ جیسا فریضہ ادا کرنا ؟ وہ تو غالب تھے جو کہہ گئے
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب ، شرم تم کو مگر نہیں آتی
مگر ہمارے حصے میں آئے یہ غالب تو بڑی بے شرمی سے کعبہ سے واپسی پر بھی اسی بہتی گنگا میں بار بار ہاتھ دھو کر اپنے دولت کدہ اور کلینک کی شان بڑھاتے جا رہے ہیں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے سو چوہے کھانے والی بلی بھی پریشان ہے کہ یہ کہاوت مجھ پر کیوں لاگو کی جاتی ہے کہ سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی۔
کیا وجہ ہے میڈیکل ایسوسی ایشنز اسی طرف توجہ نہیں کرتیں؟ کیا اس حمام میں سب ایک جیسے ہی رہ گئے ہیں؟ حکومت کے قائم کردہ ادارے کے ہاتھ اس گھناؤنے کاروبار میں ملوث سفید کپڑے پہنے مجرموں کی گردن تک کیوں نہیں پہنچتے؟ ہمارے علماء کرام اس کھلی رشوت ستانی کے کاروبار کے خلاف کیوں آواز بلند نہیں کرتے؟ کسی بھی مریض کو 1 دوا بھی ایسی دی جائے جو اس کے مرض کے مطابق نہ ہو یا اس کے لئے اضافی ہو، تو وہ اس کی حق تلفی کے برابر ہے۔ حقوق العباد جس کی بابت کہا جاتا ہے کہ بندے کے حقوق بندوں سے ہی بخشوانے پڑیں گے، وگرنہ آپ کی نیکیاں اس کے کھاتے میں ڈال دی جائیں گی۔ پھر کیا یہ سب نیکیاں روز جزا کسی اور کے کھاتے کے لئے کمائی جا رہی ہیں؟ بدھو میاں ہم کو سوچ میں غلطاں دیکھ کر فرمانے لگے بھئی بیمار کی مزاج پرسی کا یہ کونسا طریقہ ہے۔ کم از کم ہماری طبیعت اور جیب کی طبیعت کے افاقہ کے لئے دعا ہی کر دیجئیے۔ ہم نے بدھو میاں اور تمام مریضوں کی جلد صحتیابی کی دعا کرتے ہوئے بدھو میاں کو رخصت کیا۔ پھر سوچنے لگے کہ پرانے ڈاکٹرز تو فیس میں دعا کماتے تھے موجودہ ڈاکٹرز کیا کما رہے ہیں؟ بددعا لکھتے ہوئے ہمارے ہاتھ کانپ رہے ہیں، لیکن کیا یہی بددعا کمانے کے لئے ڈاکٹرز کے نسخہ لکھتے ہوئے ہاتھ کانپتے ہیں؟ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کمپنیوں کی طرف سے دیئے جانے والے یہ پیکجز سوائے رشوت کے کچھ نہیں ہیں۔ اب آپ جتنے مرضی خوبصورت الفاظ سے اس کو خوشبودار بنانے کی کوشش کریں، لیکن مریضوں کے دل سے نکلتی بددعائیں اس بدبو کو آپ کے کلینکس سے نکلتے محسوس کر رہی ہے۔ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر سوچئے
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا
Leave a Reply