rki.news
تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
کبھی دیکھے ہیں بے یارو و مددگار، دربدر بنجارے، تھکے ہارے، روتے ہوئے،محروم تمنا اور محروم محبت لوگ، وہ جن کے پیٹ میں بھوک کی گرہیں کبھی کھلتی اور کبھی ایک دوسرے میں الجھ جاتی ہیں، ذائقے ایک دوسرے میں مکس ہو کے بھوک کی اشتہا کو بڑھانے کی بجائے ختم کرنے کا شغل جاری رکھتے ہیں، محرومیاں اس طرح سے انسانی سانسوں پہ حملہ آور ہوتی ہیں کہ سواے آہوں، سسکیوں, ظلم و ستم کو خامشی سے برداشت کرنے اور شام تنہائی کے پہلو میں دبک کے نیند نہ آنے کے باوجود بھی سوجانے کے اور کچھ نہیں بچتا، کیا کریں؟ کس کو قصہ غم سنائیں؟ ، کس کے سامنے داستان درد بیان کریں،؟ کسے اپنا سمجھ کے اس کے سامنے اپنی داستان غم کو دوہرایں؟ اہل دنیا کے روگ اب اتنے زیادہ ہو چکے ہیں کہ انسانی جسم و روح دونوں ہی شدید اذیت میں مبتلا ہیں اور اس بات سے بے خبر ہی ہیں کہ اس اذیت بے پناہ سے کس طرح پیچھا چھڑا پا سکے گے،
اس شدید نفسانفسی میں غرق خودغرض، خود پسند، بے وفا معاشرے سے جان چھڑانے کے لیے کون سا تیر بہدف نسخہ استعمال کیا جاے کہ انسان کی جان اس عذاب اور عذاب الہی سے ہر حال میں چھوٹ جاے، لیکن ایسا ہم سوچ تو سکتے ہیں، اس عذاب سے جان چھڑانے کے لیے تگ و دو بھی کرتے ہیں مگر نہ اس عذاب الہی سے جان چھوٹتی ہے نہ ہی آنگن میں امن کے پنچھی چہچہاتے ہیں، ہر صبح بھلے امید نو کے ساتھ ہی بیدار ہوتے ہیں مگر دنیاوی قہر کا سامنا کرتے کرتے شام کے دھندلکے کے ساتھ ساتھ رات
کے خوف میں پناہ لینے پہ
مجبور ہو جاتے ہیں. کیسی دنیا، کیسے ممالک، کیسی حکومتیں، کیسی رعایا، کیسے اہل. منصب اور کیسے اہل. منصف، قوانین کے فرمودات سے کتابوں پہ کتابیں موجود ہیں، گناہوں کے قد و قامت کے حساب سے سزائیں سنای بھی جاتی ہیں اور ان احکامات پہ عمل درآمد بھی ہوتا ہے اور یہ کاروبار حیات بنا کسی رکاوٹ کے بڑے تسلسل سے جاری ہے.
غربت امارت، تیری میری اور اونچ نیچ کی کٹھنایوں کے علاوہ بھی متعدد مسائل ہیں جنہوں نے سادہ لوح انسانوں کا جینا عذاب کر رکھا ہے،ایک بات اگر اہل دنیا سمجھ لیں تو شاید انسانیت اس طرح نہ شرماے، شاید اہل محبت ایک دوسرے سے یوں یوں آنکھیں نہ چرایں، لیکن شاید یہ سب ممکن نہ ہو پاے، اور قیامت برپا ہو جاے؟ مجھے تو ایسا ہی لگتا ہے، مظلوم، غربا اور مساکین کے کندھوں پہ بندوق رکھ کے اہل طاقت نے جو کھیل رچا رکھا ہے اس کا خاتمہ اسرافیل کے صور پھونکنے تک جاری رہنا ہی ہے بھلے اہل شعور اور اہل دل جتنی مرضی دوہاییاں دے لیں، جتنے مرضی واسطے دے لیں، مصلوں پہ کھڑے ہو کے اور سجدوں پہ سجدے کرتے ہوے امن و ایمان کی جتنی مرضی دعائیں مانگ لیں، دعائیں لوٹا دی جا رہی ہیں، اور لوٹای جاتی رہیں گی، یہی کاروبار حیات اور یہی داستان حیات ہے. اور رسول عربی نے فرمایا کہ تم سے پہلی قومیں اس لیے تباہ و برباد ہویں کہ جب کسی طاقتور شخص سے جرم سرزد ہو جاتا تھا تو وہ اپنی طاقت کے بل بوتے پہ بڑے سے بڑے جرم سے بھی آسانی سے بچ جاتا تھا اور جب کوی غریب شخص جرم کرتا تھا تو وہ دھر لیا جاتا تھا تو کیا ہم ایک ایسے ہی دور میں سانسیں نہیں لے رہے جہاں انسان، انسانوں سے بالکل ہی بے حسی کا مظاہرہ کرنے سے نہ ہی چوکتے ہیں اور نہ ہی ہچکچاتے ہیں بلکہ ڈنکے کی چوٹ پہ یہ راگ الاپنے سے بھی باز نہیں آتے. ایک سولہ سالہ جج صاحب کا لڑکا جس کے پاس نہ شناختی کارڈ ہے اور نہ ڈراییونگ لائیسنس، دو باییک پہ سوار لڑکیوں کی زندگیوں کا چراغ گل کرنے کے بعد بھی صرف پانچ دن کے اندر پاک صاف ہو کے آنسوؤں اور سسکیوں بھرے ایک مجبور اور محروم صلح نامے کا پروا نہ لے کر واپس آ جاتا ہے اب یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہو گا کہ امیر اور غریب کی تکلیف، دکھ درد اور پریشانیاں کیوں فرق ہوتی ہیں؟ کیا دل پہ چوٹ اور آنکھوں میں آنسو صرف امرا ہی کو جچتے ہیں؟؟؟
خواتین روز اول ہی سے معاشرتی نا انصافیوں کا شکار رہی ہیں، اپنے ہی گھر میں رہتے ہوئے اپنی خونی رشتوں کے استحصال کے ساتھ گھر سے باہر جی بھر کر استحصال کروانے والی خواتین کے خون کے آنسو اور تشنہ آرزوئیں، خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تمام نام نہاد این جی اوز اور حقوق نسواں کے لیے دن رات سرکرداں جماعتوں کے لیے لمحہ فکریہ ہیں.
اور اچھی زندگی گزارنے کی خواہش رکھنے والے ان تمام مرد و زن کو اپنی فیملی بنانے سے پہلے یہ ضرور سوچ لینا چاہیئے کہ آیا ان میں اپنے بچوں کے والدین بننے کے ساتھ ساتھ اکٹھے اس بچے کو پروان چڑھانے کی صلاحیت ہے بھی یا نہیں؟ کیوں کہ معصوم بچوں کو والدین کی لڑائیوں سے بھی کہیں زیادہ بڑھ کے ماں اور باپ دونوں کی شدید ضرورت ہوتی ہے.
زیادہ تر واقعات میں فوراً سے پہلے محبت، شادی اور بچے تک ہو جاتے ہیں اور پھر اچانک محبت کرنے والوں کو الہام ہوتا ہے کہ وہ تو ایک دوسرے کے لیے بنے ہی نہیں ہیں اور پھر اس Toxic relationship سے فرار پانے کے لیے خلع یا طلاق کے چکر چلتے ہیں، منصف انسانی احساسات کو پس پشت ڈالتے ہوے، عقل کل کی مکمل تفسیر بنے ہوے لگے بندھے مروجہ قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے فیصلے سنا کے اپنے ضمیر کی عدالت میں بری الذمہ ہو جاتے ہیں لیکن ان فیصلوں پہ عمل درآمد ہوتے وقت جو انسانی بربادی ہوتی ہے وہ اہل منصب اور اہل منصف کیا جانیں کہ فیصلوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے انسانوں کو کتنی قربانیاں دینی پڑتی ہیں، جیسے ایک خلع کے کیس میں مرد کو فیصلہ سنایا گیا کہ بیٹی کو ماں کے حوالے کر دیا جاے تو بزدل یا غیور باپ نے بیٹی سمیت دریا میں چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی اور اس اجتماعی خود کشی سے پہلے جو ویڈیو پیغام ریکارڈ کروایا اس نے اہل دنیا کے دل دہلا دیے، ایک دو تین سالہ لولی پاپ کھاتی ہوی بے فکر و بے پروا معصوم بچی کا خون کس کے سر ہوا، خلع لینے والی ماں،خود سر باپ، یا فیصلہ سنانے والے بادشاہ؟
اشرافیہ اور امرا کو چھوڑ کر عام انسان کو اپنی روزی روٹی کمانے سے دوا دارو کے تمام جتن خود ہی کرنے ہوتے ہیں، راہ چلتے ہوے کھلے ہوے مین ہول میں گرنے سے بچاو کے طریقے بھی اگر آپ کو ازبر نہیں ہیں تو پھرکھلے گٹر کے چوری شدہ مین ہول کے ڈھکن میں اگر آپ اور آپ کا کوی پیارا گر کے جان کی بازی ہار گیا تو آپ سواے رونے دھونے اور واویلہ کرنے کے اور کچھ نہیں کر سکتے جیسے چند روز قبل ایک معصوم بچہ گٹر میں گر کے جان کی بازی ہار گیا،
مگر اب برداشت کی تمام حدیں پار ہو چکی ہیں اہل منصب اور اہل منصف کو سوچنا ہو گا کہ کس منہ سے روز محشر اس خدا کی عدالت میں پیش ہوں گے جس نے انسان کو پیدا ہی درد دل کے واسطے کیا تھا. اور انسان طاقت اورعہدے کے گھمنڈ میں ایسے مست ہوا کہ اپنے ہی جیسے انسانوں کے دکھ درد سے نہ صرف نظریں چرا گیا بلکہ باقاعدہ منظم طور پہ اسے نشانہ ستم بنانے پہ بھی تل گیا. کیونکہ انصاف کی دیوی کی تو آ آنکھیں ہی نہ تھیں.
اہل منصب کو سوچنا ہو گا
اہل منصب کو سوچنا ہو گا
جبر ناحق کو روکنا ہو گا
توڑنی ہوں گی زنجیریں ساری
بے منصفی کو ٹوکنا ہو گا
ظلم اب حد سے بڑھا جاتا ہے
نشہ اب سر سے چڑھا جاتا ہے
لاج رکھنی پڑے گی حرمت کی
خوف کی اور سارے جھرمٹ کی
بند آنکھوں کو کھولنا ہو گا
اہل منصب کو سوچنا ہو گا
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Punnam.naureenl@icloud.com
Leave a Reply