rki.news
تحریر:اللہ نوازخان
ایران اس وقت شدید بحرانوں میں گھراہوا ہے۔ایران کو پابندیوں کا بھی سامنا ہےاور جنگ کے خطرات بھی موجود ہیں۔ایران کا اصل مسئلہ جوہری توانائی ہے۔امریکہ،یورپی یونین اور دیگر طاقتیں چاہتی ہیں کہ ایران کے پاس جوہری توانائی نہ رہے۔جوہری مواد کوختم کرنے کے لیےایران پر کچھ ماہ قبل اسرائیل نے حملہ بھی کیا تھا،اسرائیل کے علاوہ امریکہ نے بھی بھرپور حملہ کیا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےدعوی کیا تھا کہ ہم نےایران کے جوہری مواد کو تباہ کر دیا ہے،لیکن ایرانی اتھارٹی کی طرف وضاحت کی گئی تھی کہ جوہری مواد کو حملے سے قبل محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا اس لیےجوہری مواد محفوظ ہے۔امریکہ مسلسل ایران پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ جوہری توانائی سے بازآجائے۔ابھی تک ایران اپنے موقف پر ڈٹا ہوا ہے اور کسی قسم کی لچک دکھانے سے بھی انکار کرچکا ہے۔تقریباایک ہفتہ قبل امریکہ کی طرف سے ایران پر نئی پابندیاں بھی لگا دی گئی تھیں۔امریکی محکمہ خزانہ کے مطابق کچھ فوجیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ان ہونے والی نئی پابندیوں میں فنڈز کی منتقلی،ایرانی تیل کی فروخت اور جس سے ایرانی فوج کو فائدہویا پاسداران انقلاب کوفائدہ ہو،شامل ہی،علاوہ ازیں دیگر پابندیاں بھی لگائی گئی ہیں۔بہت سی پابندیاں پہلے ہی لگی ہوئی ہیں،جن کی وجہ سے ایران کافی مشکلات میں پھنس چکا ہے۔پابندیوں کی وجہ سے ایران اپنے تیل کو آسانی سے فروخت کرنے سے قاصر ہے۔تیل کی فروخت بند ہونے کی وجہ سےایران کافی مسائل سے دوچار ہو چکا ہے۔ایران اپنا تیل سستے داموں فروخت کرنے کے لیے بھی تیار ہے لیکن پابندیوں کی وجہ سےخریدار نہیں ملتا۔ایران کے پاس سب سے بڑی دولت یہی تیل ہے،لیکن اس کی فروخت نہ ہونے کی وجہ سےایرانی معیشت بہت ہی کمزور ہو چکی ہے۔
ایران کی طرف سے بارہا یہ وضاحت ہو چکی ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مثبت مقاصد کے لیے ہے۔امریکہ کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش ہو رہی ہے لیکن ایران ان مذاکرات کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ایران کی طرف سےاس لیے ان مذاکرات کو تسلیم کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے کہ امریکہ دباؤ اور دھمکی کے ذریعےشرائط کو تسلیم کروانا چاہتا ہے۔دباؤ اور دھمکی کوایران کسی بھی خاطر میں لانےسے انکاری ہے۔ایران کے سپریم لیڈرآیت اللہ علی خامنہ ای نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ امریکہ کے ساتھ کسی بھی قسم کی بات چیت بند گلی ہے،جو ایران کے لیے کسی فائدے کی حامل نہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکی فریق بضد ہے کہ ایران کو(یورنیم)افزودگی کی اجازت نہ ہو۔خامنہ ای نےمزید کہا کہ ہم نے نہ ہتھیار ڈالے ہیں اور نہ ڈالیں گے،اس معاملے میں یا کسی اور معاملے میں دباؤ کےآگے نہیں جھکیں گے۔سپریم لیڈر نے یہ بھی کہا ہے کہ امریکہ کی طرف سے مذاکرات صرف ایران کو نقصان پہنچاتےہیں۔انہوں نےمزید یہ بھی کہا کہ موجودہ حالات میں امریکہ سے مذاکرات بے فائدہ ہیں بلکہ بڑے نقصان دہ بھی ہیں۔خامنہ ای کایہ بیان اس وقت سامنے آیا،جب یورپی طاقتیں ایران کے خلاف،اس کے جوہری پروگرام پر سخت پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کے لیے ملاقات کر رہی تھیں۔ایران پر مزید پابندیاں لگنے کا امکان ہےاور ایرانی وزیر خارجہ کے پاس تھوڑا سا وقت ہے کہ وہ برطانوی،فرانسیسی، جرمن اور یورپی یونین کےہم منصبوں کے ساتھ معاہدہ کرے،تاکہ اقوام متحدہ کی معطل شدہ پابندیاں دوبارہ نافذنہ ہو سکیں۔ایران مسلسل کوشش کر رہا ہے کہ کچھ ممالک اس کا ساتھ دیں تاکہ وہ مسائل سے نکل سکے۔مخالفین کی کوشش ہے کہ ایران کے پاس جوہری قوت موجود نہ رہے۔ایران کے امریکہ یا دوسرے ممالک کے ساتھ مذاکرات اس لیے بھی ناکام ہو جاتے ہیں کہ ہر فریق اپنی شرائط منوانا چاہتا ہے۔ایران اپنے موقف پر مضبوطی سے ڈٹا ہوا ہے جیساکہ ایرانی سپریم لیڈرخامنہ ای نےتقریبا کھل کے ہی کہہ دیا ہے کہ ہم نہ ہتھیار ڈالیں گےاور نہ جھکیں گے بلکہ مقابلہ کریں گے۔
یورپی فریق نے بھی پابندیوں میں رعایت کی مدت بڑھانے کے لیےایران کو تین شرائط پیش کی ہیں۔پہلی شرط یہ ہے کہ بغیر کسی پیشگی شرط کے براہ راست مذاکرات کی بحالی ہو،دوسری شرط یہ ہےکہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی(آئی اےای اے)کے معائنہ کاروں کو مکمل رسائی اور تیسری شرط کے مطابق افزودہ مواد کے مقامات کے بارے میں درست معلومات فراہم کی جائیں۔یہ تینوں شرائط ایران کے لیے بہت ہی سخت ہیں اور یقینا ان کو تسلیم کرنے سے انکار ہی کیاجائے گا۔تینوں شرائط ایک ہی شرط کوظاہر کر رہی ہیں کہ ایران کے پاس ایٹمی قوت نہ رہے۔ایران مذاکرات کر رہا ہے لیکن اس بات سے انکاری ہے کہ مذاکرات کے نام پر اس کو ایٹمی مواد سے دستبرداری پر مجبور کیا جائے۔آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کو ایٹمی مواد تک رسائی اور جہاں ایٹمی مواد موجود ہے،ان مقامات کی معلومات فراہم کرنے کا مطلب یہ ہےکہ مخالف فریق کی شرائط تسلیم کر لی گئی ہیں۔اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ پابندیاں لگانے کے علاوہ ایران پر حملہ بھی کیاجاسکتاہے۔اب اگرامریکہ یا کوئی اور ملک ایران پر حملہ کرتا ہے توایران بھی سخت جواب دینے کا تہیہ کر چکا ہے۔اسرائیل کافی عرصے سےایران کو ختم کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے کیونکہ مشرق وسطی میں ایران اس کےسامنےسب سے بڑی رکاوٹ ہےاور اس رکاوٹ کو ختم کیے بغیر اسرائیل آگے نہیں بڑھ سکے گا۔کچھ دنوں کے بعد صورتحال واضح ہو جائے گی،ابھی بہت کچھ واضح ہونا باقی ہے۔جنگ کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا لیکن جنگ کا میدان ایران بھی ہو سکتا ہے اور کوئی دوسرا ملک بھی۔ایران حکمت عملی کے تحت خود بھی حملہ کر سکتا ہےاور اس کا نشانہ اسرائیل کے علاوہ کوئی اور ملک بھی ہو سکتا ہے۔بہرحال کشیدگی بڑھی ہوئی ہےاوریہ بڑھتی کشیدگی خطےکےلیےسخت نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔
Leave a Reply