Today ePaper
Rahbar e Kisan International

ایران اورامریکہ کےدرمیان ایٹمی مذاکرات

Articles , Snippets , / Monday, May 5th, 2025

rki.news

تحریر:اللہ نوازخان
allahnawzk012@gmail.com

ایران اور امریکہ کےدرمیان حالیہ دنوں میں تناؤ بڑھ چکا ہے۔جوہری توانائی کے سلسلے میں مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تھا،لیکن ان کے نتائج حوصلہ افزا نہیں ہیں۔روم میں ہونے والا مذاکرات کا چوتھا دور منسوخ ہو گیا ہے۔امریکہ مسلسل کوشش کر رہا ہےکہ ایران ایٹمی ہتھیار نہ بنائے۔کچھ عرصہ پہلے دعوی کیا گیا تھا کہ ایران ہتھیاربنانے کے قریب یورنیم افزودہ کر چکا ہے،اب ممکن ہے کہ افزودہ یورنیم سے جوہری ہتھیار بنائے جا چکے ہوں۔امریکہ دھمکیاں دے رہا ہے کہ ایران پرسخت حملہ کیا جا سکتا ہے جس کے نتائج بہت ہی خوفناک ہوں گے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید پابندیاں لگانا شروع کر دی ہیں۔امریکی صدر نے کہا ہےکہ جو ممالک ایرانی تیل یا پیٹرو کیمیکل خریدیں گے،ان پر بھی پابندیاں لگائیں گے۔امریکہ چاہتا ہے کہ ایران سے کوئی ملک یا فرد تیل نہ خریدے،تاکہ ایران پر پریشر ڈالا جائے۔پابندیوں کے علاوہ جنگ کی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں۔امریکہ کے علاوہ اسرائیل کی بھی خواہش ہے کہ ایران اتنی قوت حاصل نہ کر لے جو مستقبل میں ان کے لیےخطرناک ثابت ہو۔ایران نے جدید ہتھیار دنیا کو دکھائےہوئے ہیں،لیکن اصل مسئلہ جوہری ہتھیاروں کا ہے۔ایرانی جوہری ہتھیاروں کا خوف، امریکہ اور اسرائیل کے علاوہ دیگر کئی ریاستوں کے لیے بھی خوف بن گیاہے۔امریکی وزیر خارجہ مارکوروبیو نےبھی ایک بیان جاری کیا ہےکہ ایران کو یورنیم کی افزودگی اور میزائل کی تیاری سے دستبردار ہونا پڑے گا،لیکن ایران یورنیم کی افزودگی کو اپنا حق سمجھ رہا ہے۔ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے امریکی وزیرخارجہ کوجواب دیتے ہوئے کہا کہ ایران کو مکمل جوہری ایندھن کا عمل کرنے کا حق حاصل ہےکیونکہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے متعدد رکن ممالک یورنیم کی افزودگی میں مصروف ہیں۔تہران کی طرف سےوضاحت کی جا چکی ہے کہ این پی ٹی کے کئی ارکان ممالک جوہری ہتھیاروں کو مکمل طور پر مسترد کرنے کے باوجود بھی یورنیم افزودہ کر رہے ہیں اور ایران کی یورنیم افزودگی مثبت مقاصد کے لیے ہے۔ایران پر پہلے سےہی بہت سی پابندیاں لگی ہوئی ہیں اور مزید پابندیاں لگائی جا رہی ہیں،جن سے ایران کی بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری ہتھیاروں کے بارے میں مذاکرات کامیاب نہیں ہوئے لیکن مکمل ناکام بھی نہیں کہے جا سکتے،کیونکہ اس بات کا بھی ارادہ کیا گیا ہے کہ دوبارہ باہمی رضامندی سے مذاکرات کا اعلان جلد کر دیا جائے گا۔ممکن ہے مذاکرات سے کوئی حل نہ نکل سکے،تو جنگ کا امکان بڑھ جائے گا۔یہ بھی ممکن ہے کہ ایران کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہوں،اگر واقعی ایٹمی ہتھیار موجود ہوئے تو ایران ایٹمی ہتھیار جنگ میں استعمال کر سکتا ہے۔امریکہ بھی ایٹمی حملہ کر سکتا ہے۔ایٹم بم کااستعمال بہت ہی تباہی پھیلائے گا۔ایران پر مزید لگائی گئی پابندیاں تشویش ناک ہیں،کیونکہ پابندیوں سےقحط کی صورتحال پیدا ہوجائےگی اور اس سےوسیع پیمانے پر انسان مر سکتے ہیں۔مذاکرات برابری کی سطح پر ہونے چاہیے،اس طرح مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے کہ ایک فریق کوزبردستی بات تسلیم کرنے کا حکم دیا جائے۔ایران کمزور پوزیشن پر ہونے کے باوجود بھی ڈٹا ہوا ہے۔ایران پر شاید اس لیے حملہ نہیں کیا جا رہا کہ امریکہ جان چکا ہے کہ ایران کے پاس ایٹمی مواد موجود ہے۔
جوہری قوت بجلی گھروں کے لیے ایندھن بنانے کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے لیکن اس سے جوہری ہتھیار بھی بنائے جا سکتے ہیں۔جوہری ہتھیار استعمال کرنا’آخری آپشن’ہوتا ہے لیکن استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ایرانی اور امریکی مذاکرات کا چوتھا دور لاجسٹکس بنیادوں پر منسوخ کیا گیااور نئی تاریخ کے بارے میں اعلان باہمی رضامندی سے جلد کیا جائے گا۔مذاکرات کا دورانیہ شاید لمبےعرصےتک چلے،لیکن مقاصد پورے ہونے چاہیے۔جس طرح اندازہ لگایا جا رہا ہے کے ایران کے پاس فوری طورپرایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت آچکی ہے،اگر واقعی صلاحیت حاصل کر لی گئی ہے تو جوہری ہتھیار دوسروں کو بھی فروخت کیے جا سکتےہیں۔جوہری توانائی کا حصول ہر ایک ملک کی اولین خواہش ہےاور ایران مجبورا ان کو فروخت کرے گا،یہ عمل جوہری توانائی پھیلانے کا سبب بنےگا۔جتنی زیادہ جوہری توانائی پھیلتی جائے گی اتنا ہی دنیا کے لیے خطرات بڑھتے جائیں گے۔ایران کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں لیکن حل بھی نکلناضروری ہے۔ایران اگر کسی ملک کو جوہری توانائی فروخت نہ کرےاور قحط کی صورتحال بھی پیدا ہو جائے،تو ایران کسی بھی ملک کو مجبور کر سکتا ہے کہ اس کی مدد کی جائےاور مددنہ کرنے کی صورت میں ایٹم بم استعمال کرنے کی بھی دھمکی دے دے گا۔صرف دھمکی ہی نہیں حملہ کیا بھی جا سکتا ہے۔پڑوسی ممالک سلامتی کی خطرے سے دوچار ہو جائیں گے۔ایران کے پڑوسی ممالک خود بھی کوشش کریں کہ مسئلے کا کوئی بہتر ہر نکل آئے۔امریکہ اور ایران جنگ کی صورت میں پڑوسی بھی بد امنی کی لپیٹ میں آجائیں گے۔خدانخواستہ ایٹمی جنگ شروع ہو گئی تو پڑوسی ممالک لازمی طور پرنقصان اٹھائیں گے۔ایران ایٹمی توانائی سے دستبردار ہونا بالکل پسند نہیں کرے گا کیونکہ ایران کی سلامتی ایٹمی توانائی سے جڑی ہوئی ہے۔ایٹمی توانائی کے فائدے بھی بہت ہیں اور اس توانائی کا مثبت استعمال بہت ہی فائدہ مند ہے،لیکن اس کی تباہی بھی بہت ہی خوفناک ہوتی ہے۔امریکہ اور دوسری طاقتیں اس بات کو سنجیدگی سے سمجھیں کہ ایران تنگ آکرکوئی ایسی سرگرمی دکھا سکتا ہے جس سے کسی کو بھی نقصان پہنچ سکے،اس لیے ضروری ہےکہ ایران سےبہتر رویہ کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔امریکہ اور ایران کے درمیان اگر جنگ شروع ہو جاتی ہے تو یہ زیادہ لمبے عرصے تک نہیں چلے گی کیونکہ ایران امریکہ کا آسانی سی مقابلہ نہیں کر سکتا اور جنگ اس خطے کے لیے بہت زیادہ نقصان دہ ہوگی۔پڑوسی ممالک اور اقوام متحدہ فوری طور پر اس مسئلے کا حل نکالیں،ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے۔امریکہ خود بھی مسلسل انتشار پھیلا رہا ہےاور انتشار پھیلانے کا سبب یہی ہے کہ امریکہ کے پاس زیادہ تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔امریکی طاقت کامقابلہ ایرانی ایٹمی طاقت سے ہو سکتا ہےاور ایٹم بم بہت ہی تباہ کن ہے۔یہ واضح ہو رہا ہے کہ ایران امریکہ کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو چکا ہےاور یہی جرات دنیا کے لیے حیران کن ہےاور سمجھا جا رہا ہے کہ ایران کے پاس ایٹمی قوت موجود ہے۔ایران امریکہ کا شاید ایک ہفتہ بھی مقابلہ نہ کر سکے،اس لیے ایران ایٹمی طاقت کا بھی استعمال کر سکتا ہے اور ایرانی ایٹمی طاقت کے استعمال کا خوف امریکہ کو بھی مجبور کر دے گا کہ وہ بھی فوری طور پر ایٹمی حملہ کر دے۔ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کامیاب ہونے کی توقع رکھنی چاہیے،لیکن مسائل بہت الجھےہوئے ہیں۔اگر مسائل کو سلجھانے کی کوشش نہ کی گئی تو انتشار بہت زیادہ پھیل جائے گا۔ایٹمی جنگ مشرق وسطی بلکہ پوری دنیا کے لیےخوفناک ثابت ہوگی۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International