rki.news
تحریر: ڈاکٹر منور احمد کنڈے۔ ٹیلفورڈ۔ انگلینڈ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایران کا جوہری پروگرام صدیوں کے تاریخی تعاقب اور قومی عزت و خودمختاری کے نغمے کے سنگم پر ٹکا ہوا ہے۔ اس کی ابتدا 1970 کی دہائی میں پہلوی شاہی دور میں “ایٹم برائے امن” نامی منصوبہ سے ہوئی تھی، لیکن 1979 کے آیت اللہ خمینی کے اسلامی انقلاب نے اسے معلق کر دیا، مگر جنگِ ایران و عراق اور بیرونی سازشوں نے اسے دوبارہ روشن کیا۔ ۔ جب ایران نے نیٹوکل معاہدے (NPT) میں رہتے ہوئے یورینیم افزودگی کے پروگرام کو جاری رکھا، تو اسے ایک علامتِ حیات و استقامت کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اسے ایک سیاسی سانپ جو آزادی کے شعلے پر مائل تھا کہا گیا۔
1990 کی دہائی میں امام حسین یونیورسٹی اور IRGC کی رہنمائی میں خفیہ تحقیقاتی مراکز کا قیام عمل میں آیا، اور 1989 سے 2003 تک جاری “عَمَد Project” نے جوہری بم کے حصول کی تکنیکی زمین ہموار کی۔ 2002 میں امریکی صدر بش کا دورہ عراق، Natanz و Arak کی شناخت کا سبب بنا، یہ نفسیاتی جھٹکے ایران کو عالمی نگرانی کے دائرے میں لے کر آ گئے۔
بین الاقوامی جوہری ایجنسی (IAEA) نے بارہا اپنی رپورٹس میں اعلان کیا کہ ایران نے ڈیٹا چھپایا ہوا ہے اور غیر اعلانیہ مواد رکھا ہوا ہے، مگر حقائق نے یہ ثابت کیا کہ اس وقت تک کوئی مکمل بم تیار نہیں ہوا تھا۔ حالیہ اندازے بتاتے ہیں کہ ایران کے پاس 60 فیصد افزودہ یورینیم کی 408 کلوگرام اسٹاک موجود ہے۔ یہ اتنی مقدار ہے کہ محض چند ماہ میں سائینسی ہنرمندی سے اسے ہتھیار میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
Fordow، گہری پہاڑی تنصیب ایران کا سب سے محفوظ مقام تھا، جہاں امریکہ نے 22 جون
بمباری کی۔ سیٹلائٹ تصاویر اور تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بڑے پیمانے پر نقصان ہوا، لیکن یہ بھی خبریں ہیں کہ یورینیم اسٹاک پہلے ہی وہاں سے کہیں اور خفیہ مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا، جو یہ سوال اٹھاتا ہے کہ شاید کوئی اور خفیہ ذخیرے بھی موجود ہوں۔
سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے 2003 میں یہ فتویٰ جاری کیا کہ ایٹمی ہتھیار بنانا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ یقیناً یہ ایک روحانی و اخلاقی بیان تھا، مگر بعض حلقوں کا خیال ہے کہ سیاسی حالات کی شدت میں یہ فتویٰ اپنے دفاع کی خاطر پیچھے بھی ہٹایا جا سکتا ہے۔
اگرچہ فی الحال ایران کے پاس کوئی تصدیق شدہ جوہری بم نہیں ہے، مگر تکنیکی صلاحیت “threshold state” ہونے کی وجہ سے اس کی تخلیق کا خطرہ باہر کی دنیا میں موجود ہے۔ امریکی اور اسرائیلی حملے نے اس کے افزائش میں رکاوٹ ڈالی، لیکن اہم یورینیم ممکنہ طور پر چھپا لیا گیا، جس نے “خفیہ توانائی ذخیرہ” کے امکانات کو پروان چڑھایا۔
آنے والے وقت میں ایران دو راستوں میں سے کسی پر گامزن ہو سکتا ہے:
پہلا، وہ اپنے افزودگی پروگرام کو بند کر کے دوبارہ سفارتی میز پر آ جائے۔
یا دوسرا، وہ چپکے سے زیرِ زمین نئے مقامات پر ذخیرہ کرے اور اپنے چپکے سے ہتھیار تیار کرتا رہے۔
اب مطالبہ یہ ہوگا کہ عالمی اداروں اور نگرانی تنظیموں کے لیے یہ چیلنج ہے کہ مشکوک اسٹوریج کی نشاندہی کریں، اور ایران کو شفافیت کی راہ پر لانے کی کوشش کریں۔ اس کے لئے ریجیم چینج یعنی حکومت کی تبدیلی کا آپشن سر فہرست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1. The Guardian (23 June 2025)
2. Reuters (18 & 22 June 2025)
3. Financial Times (21 & 23 June 2025)
4. IAEA Reports (2003–2025)
5. Satellite Analysis by Bellingcat & Stratfor (June 2025)
Leave a Reply