rki.news
(تحریر احسن انصاری)
ایچی سن کالج لاہور، پاکستان کے ان چند تعلیمی اداروں میں سے ہے جن کا شمار صرف اسکولوں میں نہیں بلکہ قومی اداروں میں ہوتا ہے۔ یہ نہ صرف تعلیمی معیار کے لیے جانا جاتا ہے بلکہ یہاں کی روایات، نظم و ضبط، اور قائدانہ تربیت نے اسے ایک منفرد مقام عطا کیا ہے۔ یہ ادارہ ان افراد کی آماجگاہ رہا ہے جو بعد میں پاکستان کے سیاسی، عسکری، عدالتی، سفارتی، اور تعلیمی میدانوں میں نمایاں کردار ادا کرتے رہے۔
ایچی سن کالج کی بنیاد کا قصہ برصغیر کے نوآبادیاتی دور سے جڑا ہوا ہے۔ ابتدا میں 1868ء میں امبالہ میں “وارڈز اسکول” کے نام سے قائم کیا گیا تھا، جس کا مقصد ریاستوں کے نوابوں، راجاؤں اور امیروں کے بچوں کو برطانوی نظام تعلیم کے تحت تربیت دینا تھا۔ بعدازاں، اسے لاہور منتقل کیا گیا تاکہ پنجاب کے بااثر طبقے کو قریب تر تعلیمی سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ 1886ء میں اس کا نام “پنجاب چیفس کالج” رکھا گیا، اور اسی برس اسے موجودہ نام “ایچی سن کالج” دیا گیا، جو اس وقت کے لیفٹیننٹ گورنر سر چارلس ایچی سن کے نام پر تھا۔
ایچی سن کالج کا بنیادی ماڈل برطانیہ کے مشہور ادارے “ایٹن کالج” سے لیا گیا تھا، جہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ شخصیت کی تعمیر، جسمانی مضبوطی اور قائدانہ صلاحیتوں پر زور دیا جاتا تھا۔ اس وقت کالج کا ماحول ایک اشرافیہ طرز زندگی کا عکاس تھا، جہاں منتخب اور ممتاز گھرانوں کے بچے ہی تعلیم حاصل کر سکتے تھے۔
قیام پاکستان کے بعد، ایچی سن کالج میں کئی اصلاحات کی گئیں۔ ملک کے بدلتے ہوئے معاشرتی و تعلیمی تقاضوں کے تحت اس ادارے نے عام طبقے کے ذہین اور باصلاحیت طلبہ کے لیے بھی اپنے دروازے کھول دیے۔ یہ تبدیلی ادارے کی شمولیتی سوچ کی علامت بنی اور یوں یہ ادارہ حقیقی معنوں میں قومی سطح پر ایک نمائندہ ادارہ بن گیا۔
تعلیم کے حوالے سے بھی وقت کے ساتھ ساتھ ایچی سن کالج نے جدید خطوط پر خود کو استوار کیا۔ اب یہاں طلبہ کو کیمبرج سسٹم (O & A لیولز) کے ساتھ ساتھ پاکستان کے روایتی میٹرک و ایف ایس سی سسٹم میں بھی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس سے نہ صرف طلبہ کو عالمی معیار کی تعلیم ملتی ہے بلکہ انہیں مختلف امتحانی نظاموں میں خود کو آزمانے کا موقع بھی میسر آتا ہے۔
ایچی سن کالج تقریباً 200 ایکڑ رقبے پر محیط ایک خوبصورت کیمپس پر واقع ہے، جس میں تاریخی طرز تعمیر کی عمارات، جدید تعلیمی سہولیات، وسیع و عریض کھیلوں کے میدان، گھڑسواری کے اصطبل، سوئمنگ پول، اور سائنسی تجربہ گاہیں شامل ہیں۔ یہاں تعلیم کو صرف نصابی حدود میں قید نہیں کیا جاتا، بلکہ ہمہ جہت تربیت پر توجہ دی جاتی ہے۔ طلبہ کو کھیل، فنون لطیفہ، تقریری مقابلے، قیادت کی ورکشاپس، اور کمیونٹی سروس کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں، تاکہ وہ مکمل انسان بن سکیں۔ ایچی سن کالج کا “ہاؤس سسٹم” بھی طلبہ میں مسابقت، ٹیم ورک، اور بھائی چارے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔
ایچی سن کالج لاہور سے تعلیم حاصل کرنے والی نامور شخصیات میں سابق وزرائے اعظم عمران خان، ظفراللہ خان جمالی، معین قریشی، موجودہ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف اور یوسف رضا گیلانی شامل ہیں۔ دیگر اہم سیاسی رہنماؤں میں چوہدری نثار علی خان، خورشید محمود قصوری اور حماد اظہر شامل ہیں۔ سفارتی و بیوروکریسی کے شعبے میں علی جہانگیر صدیقی، شاہد حامد اور شمشاد احمد خان نے نمایاں خدمات انجام دیں۔ عسکری میدان میں جنرل اشفاق پرویز کیانی، جنرل یحییٰ خان اور لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز اس ادارے کے فارغ التحصیل ہیں۔ کاروباری دنیا میں ملک ریاض حسین اور سکندر سلطان راجہ نمایاں ہیں۔ ادب و فن میں محسن حامد، عمار مسعود اور علی سیٹھی نے بین الاقوامی سطح پر شہرت حاصل کی، جبکہ کھیلوں کے میدان میں فیصل اقبال، عمران نذیر اور خالد محمود ایچی سن کے فخر شمار ہوتے ہیں۔ یہ تمام شخصیات اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ ایچی سن کالج نہ صرف تعلیمی بلکہ قومی و عالمی قیادت کی نرسری ہے۔
آج ایچی سن کالج جدید دور کے تعلیمی تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر آگے بڑھ رہا ہے۔ ادارے کی قیادت بین الاقوامی معیارات کے مطابق تعلیمی نظام کو بہتر بنانے اور تربیتی سرگرمیوں کو وسعت دینے میں کوشاں ہے۔ طلبہ کو نہ صرف ایک تعلیمی فریم ورک فراہم کیا جاتا ہے بلکہ انہیں معاشرتی ذمہ داریوں اور انسانی ہمدردی کے جذبات سے بھی آراستہ کیا جاتا ہے۔
ایچی سن کالج لاہور بلاشبہ ایک شاندار تعلیمی ورثہ ہے۔ یہ صرف ایک اسکول نہیں بلکہ ایک ایسی درسگاہ ہے جہاں سے نکلنے والے افراد ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کی مضبوط تعلیمی بنیاد، اخلاقی تربیت، اور قومی خدمت کا جذبہ ہی ہے جو اسے دیگر اداروں سے ممتاز کرتا ہے۔ پاکستان کی تعلیمی تاریخ میں ایچی سن کالج کا مقام ہمیشہ نمایاں رہے گا، اور یہ ادارہ آئندہ نسلوں کے لیے ایک روشن مینار کی حیثیت رکھتا ہے۔( Email: aahsan210@gmail.com)
Leave a Reply